حجاب کی وجہہ سے اے ایم یو جرنلزم کی اسٹوڈنٹ کو ملازمت دینے سے انکار

,

   

حیدرآباد۔افسوسناک واقعہ میں ایک اور مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ماسٹر آف ماس کمیونیکشن اور جرنلزم کی اسٹوڈنٹ 24سالہ غزالہ احمد کو دہلی نژاد ہندی میڈیاکے ادارے نے اس وقت ملازمت دینے سے انکار کردیاجب انہوں نے اپنے سر پر حجاب رکھنے کی خواہش کا اظہار کیاتھا۔

ایک اسکرف جس سے سرکو ڈھانکنے کے لئے حجاب کے طور پر استعمال کیاجا تا ہے کہ ایک مسلم عورت کے لئے کافی اہم کپڑا سمجھا جاتا ہے۔

احمد نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر لکھا کہ”میں نے انہیں بتایاکہ میں اپنے کام کے دوران ہر وقت حجاب پہن کر رہوں گی“۔

انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ ملازمت فراہم کرنے والا خاموش ہوگیا اور مجھ سے کہاکہ میں آپ کی درخواست پر مزید بات نہیں کرسکتاہوں“۔

ابتداء میں انہیں انٹرویو کے بعد ملازمت کی پیشکش کی گئی اور تنخواہ کے متعلق بھی بات ہوئی تھی۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”وہ اپنے مطالبے پر قائم رہے یا تو میں اپنا حجاب نکالوں یا پھر ملازمت سے محروم ہوجاؤں“۔

تعجب کے انداز میں احمد نے کہاکہ ”یہ میرے لئے اوربھی حیرت کی بات ہے کہ ملازمت کا عمل پورا کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایک مسلمان ہے“

 

محترمہ احمد نے سیاست ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہاکہ”تربیتی طور پر میں نے کئی اہم میڈیا اداروں میں اس سے قبل کام کیاہے۔

یونیورسٹی کی منتخب رکن کی حیثیت سے میں نے کام کیا ہے اور حجاب میں تقریریں بھی کی ہیں۔

کہیں پر بھی اس طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا میرے ساتھ نہیں ہوا ہے اور میری تعلیم اور کام کی قابلیت کی بنیاد پر مجھے منتخب کیاگیاتھا“۔

مگر کئی لوگ اپنے ذاتی پسند کی طور پر ملازمت سے انکار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”مجھے اعزاز حاصل ہے دبے ہوئی آواز کے لوگوں کے اس معاملے کو میں آگے بڑھارہی ہوں“۔ انہوں نے کہاکہ ”شروعات سے ہی یہ میرے ذہن میں تھا۔

میں جانتی تھی وہ لوگ میرے حجاب کے متعلق سوال کریں گے‘ مگر میں اپنی شناخت بتانا چاہتی تھی‘ جو میں نے کیاہے“۔

ان سے استفسار کرنے پر محترمہ احمد نے معاشرے میں اسلام فوبیا کی موجودگی پر رضامندی کا اظہار کیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ”میڈیا ادارے اب اپنی ذاتی سونچ نشر کررہے ہیں‘اہم معلومات پر ناکام بحث بہت سارے ذہنوں کو متاثر کرتی ہے‘ یہی وجہہ ہے کہ سماج اسلام فوبیا کا شکار بنتا جارہا ہے“۔

انہوں نے اپنے تبصرہ میں کہاکہ ”خاص طور پر ایک کمیونٹی کے لوگوں کونشانہ بنایاجارہا ہے۔

ان کے خیالات کتنے غیر ائینی ہیں اسی بات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہیں سمجھانے کے لئے میں اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کو لوگوں تک لارہی ہوں“۔

موجودہ حالات میں میڈیا کے اندر عورتوں او رمردوں کے درمیان بڑے خلاء کو بھی محترمہ احمد نے اجاگر کیاہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اگر اپنی ذاتی سونچ جس میں ایک عورت جوحجاب پہنے ہوئے اس کو میڈیا کے میدان میں آنے سے روک دیاجاتا ہے تو یہ خلاء اور بڑھ جائے گی“۔

محترمہ احمد نے سوال کیاکہ ”ائین کے ارٹیکل25میں ضمیر کی آزادی‘ ملازمت کی آزادی‘ مذہب کی تبلیغ اور اس پر عمل کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔

اپنے کے ائین اصول اب کہاں ہیں؟سکیولر بھارت کہاں ہے؟۔