حج انتظامات

   

کے این واصف
سعودی عرب کے حج انتظامیہ کی جانب سے آنے والے سال کے حج انتظامات عملاً سالِ حال حج کے اختتام کے ساتھ ہی شروع ہوجاتے ہیں ۔ وزارتِ حج اور کچھ دیگر متعلقہ محکموں کے عہدیداران حج سیزن کے دوران مسلسل سارے علاقہ میں گشت کرتے ہیں، انتظامات کی نگرانی کرتے ہوئے فراہم کردہ سہولتوں سے متعلق حجاج کرام سے ان کی رائے حاصل کرتے ہیں اور انہیں نوٹ کر کے کسی بھی قسم کی کمی یا کوتاہی کی طرف کی گئی نشاندہی کو اگلے سال کے حج سیزن میں دور کرتے ہیں ۔ دنیا کے اس بے مثال اجتماع کے انتظامات کو ہر طرح سے بے جھول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حرمین شریفین کے زائرین ہمیشہ نئی سہولتوںکی فراہمی ، تعمیر و ترمیم کا کام ہوتے دیکھتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں حرم مکی میں شروع ہوئے کنگ عبداللہ توسیعی پراجکٹس اب اپنے اختتامی مراحل میں ہے جس میں مطاف کے حصہ کی گنجائش میں اضافہ سب سے اہم کام تھا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے ۔ برسہا برس پرانی کمانیں جو ہمیں مطاف کے اطراف نظر آتی تھیں، انہیں مطاف کی گنجائش میں اضافے کی خاطر پیچھے ہٹایا گیا اور اسی شکل و صورت کی نئی کمانیں نصب کی گئیں۔
ان ستونوں کے بارے میں عرصہ قبل کچھ تاریخی حقائق یہاں سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبار (جو اب بند ہوگیا) میں لکھے گئے تھے ۔ اس کے کچھ اقتسابات زائرین کی دلچسپی کے لئے یہاں پیش ہیں۔
حرم مکی کے قدیم دالانوں اور کمانوں کی اپنی تاریخ ہے۔ روزانہ ہزاروں زائرین یہاں سے گزرتے رہے لیکن بیشتر اس کی تاریخ سے ناواقف رہے۔ حتیٰ کہ اب وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ مطاف کے کنگ عبداللہ توسیعی پراجکٹ کے تحت اب عباسی اور ترک دور کے دالانوں اور کمانوں کی دوبارہ بحالی کا کام کیا گیا ہے ۔ شاہ عبداللہ کے دور میں شروع ہونے والی حرم مکی کی تو توسیع کے بعد اب یہ سعودی قیادت کے زیر اہتمام عالم اسلام کا مشترکہ ورثہ ہوگیا ہے ۔ برسہا برس قبل یہ دالانوں کی تعمیر کیلئے ٹنوں وزنی سنگ مرمر کے ستونوں کو عراق و شام سے مکہ مکرمہ تک لانا اب تک ناقابل یقین اور حیرت زدہ کردینے والی بات لگتی ہے ۔ اس تعمیری شاہکار کو دیکھ کر بہت سے سوالات ذہن میں ابھرتے تھے ۔ مثلاً معماروں اور تعمیراتی سامان کو کیسے اور کہاں سے لایا گیا ۔ کتنے معماروں نے یہ کام کیا ، اس پر کتنی لاگت آئی ، پھر درست پیمائش کر کے ٹنوں وزنی ستونوں کو کھڑا کر کے چھت کیسے ڈالی گئی جو سینکڑوں سال تک برقرار رہی ۔ اس وقت تمام کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا اور تعمیراتی کام کئی سال جاری رہا ۔ ٹکنالوجی اور لاجسٹک کے بغیر یہ ناقابل فراموش تعمیراتی کام یقیناً قدیم فنِ تعمیر کا شاہکار تھے ۔ رواقوں کی دوبارہ بحالی کے کام میں سنگ مرمر اور پتھر کے سینکڑوں برس پرانے ستونوں کو نئی تعمیر میں دوبارہ استعمال کیا گیا ہے ۔ قدیم مطاف کے دالانوں کی تعمیر کیلئے استعمال ہونے والے ستونوں کی تعداد تقریباً تین سو ہے جبکہ ان کی اونچائی لگ بھگ پانچ میٹر تھی ۔ نئی تعمیر میں ستونوں کا ڈیزائن اور اونچائی تبدیل کی گئی ہے ۔ یہ اونچائی عباسی اور ترک دور سے زیادہ ہے ۔ ہر ستون کے نیچے ایک بڑا بیس بھی تعمیر کیا گیا ہے ، تاہم قدیم اور نئے رواقوں کے ڈیزائن میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ حرم مکی کی مختلف ادوار میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی ۔ مطاف کی بڑی توسیع عباسی خلیفہ مہدی کے دور میں کی گئی ۔ ترکوں کے دور میں اس توسیع کے اوپر چھت ڈالی گئی ، گنبد اور محراب بنائے گئے ۔ اس لئے حرم کے قدیم دالانوں کو ترکوں سے منسوب کیا جاتا رہا ہے ۔ بعد ازاں شاہ سعود اور شاہ فہد کے دور میں توسیع ہوئی لیکن سارا کام ترکوں اور بنو عباس کے قدیم دالانوں کے باہر کیا گیا ۔ تاہم شاہ عبداللہ کے دور میں مطاف کی توسیع کے لئے قدیم دالانوں کو منہدم کر کے دوبارہ بنایا گیا ہے ۔
تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ عباسی خلیفہ المہدی نے مطاف کے دالانوں کی تعمیر کی ابتداء کی تھی ۔ اس کے بیٹے موسیٰ المہدی نے اس کو مکمل کیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دالانوں کی تعمیر کیلئے ملک شام اور عراق سے سنگ مر مر کے ستون منگوائے گئے تھے ۔ مطاف دالانوں میں جو ستون نصب ہیں، ان میں بعض پر کچھ تحریریں بھی تھیں۔ کئی ستونوں پر تاریخ بھی درج تھی ۔ کہتے ہیں کہ یہ کام کوفہ کے فنکاروں نے کیا تھا ۔
بتایا گیا کہ مطاف کے دالانوں میں نصب ستون کتنے پرانے ہیں اور کہاں سے لائے گئے اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ پہلے خیال تھا کہ یہ ستون شام اور مصر سے لائے گئے ہوں گے لیکن اب ماہرین کا تحقیق کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ بیشتر ستون غالباً عراق سے لائے گئے کیونکہ شام یا مصر سے ان ستونوں کا مکہ لانا مشکل تھا ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کوفہ سے ان ستونوں کو بحری راستے سے لایا جاسکتا ہے کیونکہ کوفہ دریا کے قریب ہے ۔ کشتی میں ستون لادکر سمندر کے راستے سعودی بندرگاہ لایا جانا ممکن لگتا ہے ۔ بہ نسبت دمشق یا حلب سے کیونکہ ساحلی پٹی بحیرہ احمر کی طرف ہے یا تو ستونوں کو بحری جہاز پر لاد کر پہلے عقبہ کی بندرگاہ بھی لے جایا جاتا اور وہاں سے جدہ کی بندرگاہ لایا جاتا لیکن تاریخ میں اس راستے کا کوئی ذکر نہیں ۔ شام سے زمین کے راستے بھی یہ کام ممکن نہیں تھا ۔
دنیا میں سنگ مرمر کی جتنی بھی قسمیں ہیں ان میں ہر ایک کا سنگ مرمر مختلف ہے۔ اس سے سنگ مرمر کے علاقے کا پتہ لگایا جا سکتا ہے ۔ ان ستونوں کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر ستون ایک وقت میں ایک ہی جگہ سے لائے گئے ۔ اس طرح ماہرین اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سنگ مرمر کوفہ میں لاکر پہلے انہیں ستونوں کی شکل دی گئی پھر کشتی پر لادکر جدہ کی بندرگاہ تک لایا گیا ۔
حرمین شریفین میں وقفہ وقفہ سے توسیع کا کام زائرین کی روز بروز بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کیا جاتا ہے ۔ جب حرم مکی میں حجاج کی بڑی تعداد کے مطابق گنجائش میں اضافہ کیا جارہا ہے تو ظاہر ہے میدان منیٰ جہاں سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں، اس میں بھی توسیع اور حجاج کے قیام کیلئے گنجائش میں اضافہ کیا جانا ضروری ہے ۔ گزشتہ برسوں میں منی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس میدان کے رقبہ میں اضافہ کیا گیا تھا اور حج انتظامیہ نے منیٰ کے خیموں کو اب ہمہ منزلہ کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے ۔ اس سلسلہ میں روزنامہ سیاست میں اس ہفتہ ایک مختصر رپورٹ معہ تصویر (ہمہ منزلہ خیمے) کی شائع بھی کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی تار یخ میں پہلی مرتبہ حجاج کرام کیلئے ہمہ منزلہ خیمے تیار کئے جارہے ہیں ۔ جاریہ سال حج کیلئے آنے والے حجاج کو زیادہ سے زیادہ کشادہ جگہ فراہم کرنے اور رہائش کی گنجائش میں اضافہ کے لئے حکومت سعودی عرب نے ہمہ منزلہ خیمے تیار کئے ہیں ۔ منیٰ کے خیموں کو ہمہ منزلہ بناتے ہوئے اس میں گرا ؤنڈ فلور کو ورکرس کیلئے قیام اور ا شیاء کو جمع کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا جبکہ اوپری منزل حجاج کے رہائش کیلئے مختص رہے گی ۔ ہر خیمے میں 8 حجاج کیلئے اضافی رہائش فراہم کرنے کا انتظام کیا جائے گا ۔ خیال ہے کہ اس سال یعنی 2019 ء کے حج سیزن میں منیٰ میں سارے خیمے ہمہ منزلہ نہیں رہیں گے۔
سفیر ہندوستانی حجاج کے نگران اعلیٰ ڈاکٹر اوصاف سعید نے بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی ہندوستانی حجاج کے خیموں میں دو سطحی پلنگ (Bunk Bed) مہیا کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس سے خیمہ میں گنجائش میں اضافہ ہوگا اور حجاج پلنگ پر زیادہ آرام کے ساتھ قیام کرسکیں گے ۔ اوصاف سعید نے سیاست نیوز سے کہا کہ شاید امسال محدود تعداد میں یہ دو سطحی پلنگ مہیا ہوں گے۔
پچھلے چند برسوں میں حج انتظامیہ نے بغیر اجازت حج پر آنے والوں (مقامی افراد) پر سخت پابندیاں اور سزائیں مقرر کی ہیں جس سے پچھلے دو سال کے حج سیزن میں گنجائش کے مطابق ہی حجاج نظر آئے ، جس سے بیرونی ممالک سے آنے والے اور اجازت نامہ کے ساتھ آنے والے مقامی حجاج نے بہت سہولت اور خشوع و خضوع کے ساتھ مناسک حج ادا کئے۔ اس سال حج انتظامیہ نے 25 شوال سے ہی مقامی افراد پر بھی عمرہ کرنے پر پابندی عائد کردی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حرم مکی میں توسیع کا کام جاری ہے جو اپنے آخری مراحل میں ہے ۔ مقامی افراد یعنی حدود مکہ سے باہر رہنے والے افراد پر پابندی عائد کرنے سے مطاف میں تعمیراتی عملہ کو کام کرنے میں آسانی ہوگی ۔ ایک آخری بات پر ہم اپنی آج کی گفتگو ختم کریں گے ۔ وہ یہ کہ حجاج کرام کو مقامات مقدسہ میں قیام کے دوران صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ یعنی حرم مکی کا حصہ ، منی ، میدان عرفات ، مزدلفہ اور قیام مدینہ منورہ کے دوران خصوصاً حجاج منیٰ جہاں وہ سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں، وہاں صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے ۔ بچی ہوئی غذائی اشیاء اپنے خیمہ کے باہر یا راستوں اور راہ داریوں میں پھینک دیتے ہیں۔ حمام یا بیت الخلاء میں پلاسٹک کی تھیلیاں یا کاغذ کے Covers وغیرہ پھینک دیتے ہیں جس سے ڈرینج کی نالیاں بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور یہ دیکھنے میں بھی اچھا نہیں لگتا۔ دوسرے منیٰ کے علاقہ میں بڑی کمپنیاں پانی ، دودھ اور لسی کی بوتلیں اور دیگر مشروبات وافر مقدار میں مفت تقسیم کرتے ہیں ۔ حجاج کرام یہ مشروبات پینے کے بعد خالی ڈبے اور بوتلیں کوڑے دان میں ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور انہیں راستہ ہی میں پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جب ہم حج پر آئے ہیں تو صفائی سے متعلق احکامات الٰہی کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ بے شک حجاج کرام کے تربیتی کیمپس میں اس جانب حجاج کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے مگر پھر بھی لوگ صفائی کا خیال نہیں رکھتے جو ایک افسوسناک امر ہے ۔
knwasif@yahoo.com