راجیہ سبھا میں جموں وکشمیر میں صدر راج کے نفاذ کی قرارداد منظور
نئی دہلی-پارلیمنٹ نے جموں وکشمیر میں صدارتی راج کے نفاذ کے حوالے سے لوک سبھا اور اسکے بعد راجیہ سبھا میں بحث کے بعد اسے منظوری دی ہے۔ایوا ن بالا میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان گرما گرم بحث و مباحثے کے بعد وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کے جواب کے بعد ایوان بالا نے صدارتی راج کو منظوری دی ۔
مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں واضح کیا کہ جموں و کشمیر میں ایسے حالات بن گئے تھے کہ وہاں صدر راج نافذ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھالیکن اگر الیکشن کمیشن ریاست میں آئندہ لوک سبھا الیکشن کے ساتھ اسمبلی الیکشن کرانا چاہئے تو حکومت اس کے لئے تیار ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ کرنے سے متعلق تجویز کی توثیق پر آج ایوان میں ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ریاست میں علیحدگی کے جذبات کو بڑھنے کے لئے ذمہ دار نہیں ہے اس کے بیج آزادی سے پہلے سے ہی اس وقت بو دئے گئے تھے جب ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔
اس کے بعد علیحدہ کے جذبہ کو کم کرنے یا ختم کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ان کے جواب کے بعد ایوان نے اس تجویز کو صوتی ووٹوں سے منظورکرلیاگیا۔ لوک سبھا اس ضمن کی تجویز کو پہلے ہی منظورکرچکی ہے جموں و کشمیر میں گورنر راج کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد گورنر کی سفارش پر گذشتہ 20دسمبر کو صدر راج نافذ ہوگیا تھا۔مسٹر سنگھ نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جموں و کشمیر میں صدر راج نافذ کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے بھی ریاست میں مسلسل چھ سال تک صدر راج نافذ کیا جاچکا ہے اور اس مرتبہ بھی کوئی متبادل نہیں ہونے کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے لئے کوئی سازش کی گئی۔ گذشتہ جون میں اتحادی حکومت گرنے کے بعد گورنر نے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی تھی لیکن کوئی بھی جماعت اکثریت میں نہیں تھی اور نہ ہی کوئی کسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتا تھا۔۔
اس لئے صدر سے ریاست میں گورنر راج نافذ کرنے کی سفارش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ گورنر راج کے چھ ماہ مکمل ہونے کے بعد گورنر کو صدر کو صدر راج نافذ کرنے کی سفارش بھیجنی پڑی۔
جس کے بعد گذشتہ 20دسمبر کو صدر راج نافذ ہوا۔ریاست میں علیحدگی پسندی کے جذبات بڑھنے کے لئے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بیج آزادی سے پہلے بودئے گئے تھے او رتقسیم کے بعد اس جذبہ کو کم کرنے یا ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ گذشتہ چار برسوں میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے اس سمت میں کئی کوششیں کیں اور خود انہوں نے کئی مرتبہ ریاست کا دورہ کیا اور تمام فریقین سے بات کی۔ حریت لیڈروں سے بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا رویہ منفی رہا۔
انہوں نے کہ اکہ بی جے پی منہ بھرائی کے بجائے انصاف اور انسانیت کی سیاست میں یقین رکھتی ہے۔ پچھلے چار برسوں میں جتنی کوششیں کی گئیں اتنی پچیس تین سال میں بھی نہیں ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سہرا لینے کا معاملہ نہیں ہے یہ ملک کے اتحاد ، سالمیت اور خودمختاری کا معاملہ ہے۔
سنگھ نے کہا کہ ریاست میں مرکزی حکومت کے ذریعہ بھی جو قدم اٹھائے گئے وہ خصوصی حالات میں اٹھانے پڑے اور ان کے پیچھے کوئی غلط مقصد نہیں تھا۔ حکومت جموں و کشمیر میں امن بحالی کے لئے ہر طرح کے مشوروں کا خیر مقدم کرنے اور اس پر غور کرکے آگے بڑھنے کے لئے تیا رہے۔