حضرت خواجہ سید تاج الدین شیرسوار چشتی ؒ

   

حضرت خواجہ سید تاج الدین شیر سوار ؒ سمنانی المعروف راجہ باگ سوارؒ سادات کے گھرانے میں ۶۹۶ھ میں حضرت سید احمد سمنانیؒ کے گھر پیداہوئے ۔ سمنان مضافات خراسان میں ایک مشہور شہر ہے ۔ معتبر اسنادات وتواریخ کی کتب سے یہ ثابت ہے کہ آپ ؒ کی آخری آرام گاہ کلیانی شریف (دکن) بمروف بسوا کلیان ضلع بیدرکرناٹک ہے ۔آپ کا اسم مبارک سید تاج الدین ہے ، آپؒ شیر پر سواری فرماتے تھے اس لئے شیرسوار کے نام سے مشہور ہوئے اس وجہ سے آپ ؒ کو ہندی میں راجہ باگ سوارؒ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔آپؒ کے والد بزر گوار حضرت سید احمد سمنانی ؒ تھے والدہ کا نام بی بی فاطمہ تھا اور دادی صاحبہ کا نام بی بی حفیظ تھا زوجہ محترمہ کا نام بی بی سکینہ تھا آپؒ کے دو برادر تھے ایک کا نام سید حسام الدین بنادسی اور دوسرے سید شاہ ارزاں دیوان جھانسی میں رہنے لگے تھے ۔ حضرت شیرسوارؒ کی دو بہینں بھی تھیں جو حسن پیر صاحب قبلہ بخاری کے خاندان میں بیاہی گئی تھیں حسن پیر صاحب قبلہ حضرت شیرسوار ؒ کے ساتھ دکن آئے تھے انکا مزار شریف نندگاؤں تعلقہ ہمنا آباد ضلع بیدرمیں مرجع خلایق ہے ۔ حضرت کے فرزندکا اسم شریف حضرت سید داؤد سرمست ربانی تھا جو شیخن ابدال کے نام سے مشہور تھے حضرت شیرسوارؒ نے بہ عمر۹۹ سال سات ماہ پندرہ یوم وصال فرمایا ۔حضرت شیخ نورالدین کبریٰ ؒ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔بہمنی حکومت کے اہلکار متعینہ کلیان دیگرامرائے وقت کی موجودگی میں حاجی حصار قلعہ کلیان جسکو آجکل بسواکلیان کہاجاتاہے آپکے جسد خاکی کو سپردلحدکیا گیا ۔ مزار مبارک فیض رساں ومرجع خلائق ہے ہر قوم آپکی درگاہ پر حاضری دیتی اور فیض پاتی ہے ۔ مادہ تاریخ ۷۹۹؁ھ مطابق ۱۳۹۷؁ء زہے شیر سوار ہے ۔
قاری سید شاہ انعام الحق قادری
حضرت شاہ ظہور الحق اورنگ آبادی ؒ
حضرت سید شاہ ظہور الحق قادری نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نسباً قادری تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا ہے۔ آپ مسلکاً حنفی اور مشرباً نقشبندی تھے۔ آپ حضرت عبد اللہ المعروف بہ شاہ غلام علی نقشبندی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت و خلافت رکھتے تھے اور حضرت شاہ غلام علی حضرت مرزا جان جاناں شہید رحمۃ اللہ علیہ (دہلی) کے خلیفۂ خاص تھے۔
حضرت سید شاہ ظہور الحق قادری نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ عظیم آباد پٹنہ کے متوطن تھے اور دہلی میں اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں رہا کرتے۔ جب حضرت اورنگ زیب عالمگیر نے اپنا پایۂ تخت دہلی سے اورنگ آباد منتقل کیا تو عالمگیر کی صاحبزادی نے حضرت کو بھی اورنگ آباد چلنے کے لئے کہا۔ اس طرح آپ اورنگ آباد پہنچے۔ اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کو بمقام سلطانپور تعلقہ گنگاپور ضلع اورنگ آباد میں ایک جاگیر عطا کی تھی، جو آپ کی پانچویں پشت تک چلتی رہی۔
آپؒ سے مخلوق خدا محبت و عقیدت سے پیش آتی، جنھیں آپؒ دعاؤں سے نوازتے، بالخصوص حضرت اورنگ زیب کی دختر کو آپؒ سے غایت درجہ عقیدت تھی، چنانچہ انھوں نے دو علحدہ علحدہ گنبد تعمیر کروایا، ایک میں وہ خود دفن ہیں اور دوسرا گنبد جو حضرت قبلہ کے لئے تعمیر کروایا تھا، اب بھی خالی ہے، کیونکہ حضرت شاہ ظہور الحق قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ۲۰؍ رمضان المبارک ۱۲۴۸ھ میں جب وصال فرمایا تو آپ کی وصیت کے مطابق گنبد کی بجائے آپؒ کو زیر آسمان دفن کیا گیا۔