حضرت سیدنا علی بن ابی طالب ؓکی شخصیت و اہمیت

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی (مدرس جامعہ نظامیہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب و فاطمہ بنت اسد کے بطن سے (ایک روایت کے مطابق اندرون خانہ کعبہ) چھٹویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی کفالت میں آگئے۔ اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔ آپؓ نے دس سال کی کم عمر میں اسلام قبول کیا۔ آپؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بتوں کی پوجا کبھی نہیں کی۔ ابتدائی عمر سے ہی حضورؐ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ جب کوہ صفا پر چڑھ کر حضوؐر نے اعلان نبوت کیاتو آپکی آواز پر کسی نے بھی کان نہیں دھرا، مگر حضرت علیؓ جو اس وقت عمر میں صرف پندرہ (۱۵) سال کے تھے، فرمایا: ’’گویا کہ میں عمر میں چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے، اورمیری ٹانگیں پتلی ہیں، تاہم میں آپ کا دست و بازو بنوں گا‘‘۔ جس وقت آپؓ کی عمر تقریبا بائیس (۲۲) سال تھی، آپؓ اپنی جان کی بازی لگاکر حضور ﷺکے بستر پر پوری رات لیٹے رہے اور حضور ﷺ ہجرتِ مدینہ کے لئے نکل گئے۔ حضرت علیؓ کی شخصیت و اہمیت حضور ﷺکے نزدیک اتنی زیادہ رہی کہ حضور ﷺبالعموم اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لئے حضرت علیؓ کو مامور فرماتے۔ دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر لحاظ سے حضور کی فرماں برداری اور اطاعت کرتے رہے۔حضور ﷺکے اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد خلیفۂ سوم کے زمانے تک بھی اہم کارنامے اور خدمات انجام دیتے رہے۔ اور جب آپؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو باوجود پورے ملک میں بدامنی اور اختلافی حالات پر قابوپائے، مگر دشمنوں نے آپؓ کو زیادہ دن حکومت کرنے نہیں دیا اور آپؓ کو شہید کردیا۔ آپؓ کی شہادت چالیس (۴۰)ہجری میں ہوئی۔ جملہ چار (۴)سال نو مہینے حکومت کئے۔ہمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اخلاق و کردار اور ان کی تعلیمات سے واقف ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپؓ درِ رسالت سے ابتدائی عمر سے آخر تک جڑے رہے، جو طرز عمل اور اخلاق و کردار حضور ﷺکے تھے، اسی کو حضرت علیؓ نے اپنی زندگی میں نافذ کیا۔
ابن عساکر کی روایت ہے کہ: ’’ایک روز رسول اللہ ﷺ کے گھر میں فاقہ تھا، حضرت علیؓ کو معلوم ہوا تو وہ مزدوری کی تلاش میں نکل گئے، تاکہ اتنی مزدوری مل جائے کہ رسول خدا کی ضرورت پوری ہوجائے۔ اس تلاش میں ایک یہودی کے باغ میں پہنچے اور اس کے باغ میں پانی کھینچنے کا کام اپنے ذمہ لیا، مزدوری یہ تھی کہ ایک ڈول پانی کھینچنے کی اجرت ایک کھجور، حضرت علیؓ نے سترہ ڈول کھینچے۔ یہودی نے انہیں اختیار دیا کہ جس نوع کی کھجور چاہیں لے لیں،حضرت علیؓ نے سترہ عجوہ کھجور لئے اور رسول خدا کی خدمت میں پیش کردیا۔ فرمایا: یہ کہاں سے لائے؟، عرض کیا: یا نبی اللہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آج گھر میں فاقہ ہے اس لیے مزدوری کے لیے نکل گیا تاکہ کچھ کھانے کا سامان لاسکوں۔ حضور ﷺنے فرمایا: تم کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اس پر آمادہ کیا تھا۔ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! حضورؐ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ایسا کوئی نہیں، جس پر مفلسی اس تیزی سے آئی ہو، جیسے سیلاب کا پانی اپنے رُخ پر تیزی سے بہتا ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ مصائب کے روک کیلئے ایک چھتری بنالے، یعنی حفاظت کا سامان تیار کرلے‘‘۔
ازدواجی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ دونوں میں تال میل برقرارہو، دونوں ایک دوسرے کی محبت میں سرشار ہوں اور دونوں ایک دوسرے کی ضروریات و حقوق کا لحاظ رکھے ہوں، تب ہی دونوں کی زندگی آرام و سکون سے بسر ہوسکتی ہے۔ آج کے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی بے چینی اور اختلاف ہے۔ موجودہ دور میں تو دونوں ایک دوسرے کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور مغرب میں تو یہ چیز رواج بن چکا ہے، جس کے نتیجہ میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ ایسوں کو چاہیے کہ وہ حضرت علیؓ کے اخلاق و کردار کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل کریں، جو مشعل راہ ہیں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علیؓ باوجود غربت کے اپنی زوجہ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی راحت رسانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، آپؓ خود بھوکے رہ جاتے، مگر اپنی اہلیہ کے کھانے کا انتظام فرماتے۔
zubairhashmi7@yahoo.com