حضرت فاطمۃ الزہراؓکی زندگی ہر عورت کیلئے مشعل راہ

   

محمد قیام الدین انصاری کوثر
حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ آپؓ نبوت کے دوسرے سال جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھیں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ ؓ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ ہیں۔
آپؓ حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ آپ کو ذکیہ (پاکیزہ سیرت) بھی کہا جاتا ہے۔ نیز آپ کو راضیہ (خوش بخوش) کے علاوہ بتول (دنیا و مافیہا سے بے نیاز) بھی کہا جاتا ہے۔ ام الحسنین (حسن و حسین رضی اللہ عنہم) کی آپ والدہ محترمہ ہیں۔ ام الائمۃ یعنی (اماموں کی ماں) ام الھاد (ہدایت یافتہ لوگوں کی ماں) کریمتہ الطرفین (ماں باپ کی طرف سے اعلیٰ نسب والی بھی) کہا جاتا ہے۔
سیدہ فاطمہ کا بچپن سرکاردوعالم ؐ اور محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ کی آغوش تربیت میں گذرا۔ ان حضرات کا فیضان نظر تھا کہ سیدہ نے سن شعور سے قبل زندگی گذارنے کے آداب سیکھ لئے۔ بچپن ہی میں آپ نے دعوت و تبلیغ کے فریضہ کی انجام دہی شروع کردی۔ زندگی ناداری اور مفلسی میں گذار دی کہ بعض مرتبہ تو نوبت فاقوں تک جا پہنچتی تھی۔
سیدہ فاطمہ ؓ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضرت فاطمہ ؓ سے بہت زیادہ محبت و الفت و شفقت فرماتے تھے اور آپ کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے تھے۔
سیدہ فاطمہ کی زندگی ہر مسلمان عورت کیلئے مشعل راہ ہے۔ خاوند کی خدمت اور نفع رسانی آپ کی زندگی کا مقصد تھا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو بات چیت میں اٹھنے بیٹھنے میں حضرت فاطمہ ؓ سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ہو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت فاطمہ ؓ کو آتا دیکھتے تو ان کو مرحبا کہتے تھے۔ پھر ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ مرحبا کہتیں پھر کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کا بوسہ لیتیں۔ مرض الوفات میں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مرحبا کہتے ہوئے چپکے سے ان سے کچھ بات کہی جس پر وہ رونے لگیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ ان سے چپکے سے کچھ بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں۔ حب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا تب حضرت فاطمہ ؓ نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے چپکے سے پہلے کہا تھا کہ ان کا وصال ہونے والا ہے اس پر میں رونے لگ گئی تھی پھر اس کے بعد چپکے سے فرمایا تھا کہ تم میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھ سے آملو گی۔ اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور یہ بات مجھے بہت اچھی لگی اس پر میں ہنسنے لگی تھی۔
سیدہ فاطمہ ؓ کو دنیا کی نمود و نمائش سے بچپن ہی سے سخت نفرت تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کا نکاح حضرت سیدنا علی ؓ سے کردیا۔ حضرت علی ؓ نے اپنی زرہ ۴۸۰درہم میں حضرت عثمان ؓ کے ہاتھوں فروخت کرکے حق مہر ادا کردیا۔ سیدہ فاطمہ ؓ میکے سے رخصت ہوکر جس گھر میں گئیں وہ مسکن نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قدر فاصلہ پر تھا۔ بعدازاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ کو حضرت حارثہ بن نعمان ؓ والے قریبی مکان میں منتقل کروالیا جو اور بھی قریب ہوگیا۔
جب حضرت فاطمہ ؓ رخصت ہوکر حضرت علی ؓ کے ہاں آئیں تو ان کے گھر میں ایک چٹائی بچھی ہوئی تھی، ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی اور ایک گھڑا اور ایک مٹی کا لوٹا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جہیز میں ایک چادر، چمڑے کا ایک گدا، دو چکیاں اور ایک مشکیزہ اور دو گھڑے دیئے تھے۔
حضرت فاطمہ ؓ کے بطین سے دو صاحبزادے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پیدا ہوئے۔ حضرت فاطمہ ؓ باوجود سخت تنگدستی کی زندگی گذارنے کے صوم و صلوٰۃ کی پابند رہیں۔ ذکروفکر میں مشغول رہا کرتی تھیں۔ اگر ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بہوئیں بھی حضرت فاطمہ ؓ کی پاک سیرت کو مشعل راہ بنائیں تو ان کی دنیا اور دین دونوں سنور سکتے ہیں۔ اللہ انہیں توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
٭٭٭