حضورؐ کا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک

   

ڈاکٹر سید حسام الدین
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے ۔ کیا شجر ، کیا حجر کیا انساں کیا جن تمام عالمین اور اس کی مخلوق کو اﷲ تعالیٰ نے آپ کے دائرہ رحمت میں جمع کردیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو مخاطب کرکے کہا : ( اے محمدﷺ ) ہم نے آپ کو سارے جہاں اور جہاں والوں کے لئے محض رحمت بناکر بھیجا ہے ‘‘ ۔ آپ ﷺ جہاں سارے عالم انسانیت کے لئے نہ صرف رحمت بلکہ مجسم محبت تھے وہیں جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے لئے اپنے دل میں محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے ۔
جانوروں کی بھوک پیاس کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہر حساس جانور جس کو بھوک پیاس کی تکلیف ہوتی ہو اس کے کھلانے پلانے میں ثواب ہے ۔ ( بخاری ۔ مسلم )
سرورِ کائنات ﷺ اس جہانِ آب و گل میں رحمۃ للعالمین بنکر آئے ۔ ہر ذی روح کی تکلیف پر آپ کا جذبہ ترحم جوش میں آجاتا تھا چنانچہ ایک دفعہ کوئی صحابی سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کے ہاتھ میں کسی پرندے کے بچے تھے وہ چیں چیں کررہے تھے ۔ حضور ﷺ نے پوچھا یہ بچے کیسے ہیں ؟ صحابی نے عرض کیا یا رسول اﷲ میں ایک جھاڑی کے قریب سے گذرا ، ان بچوں کی آواز آرہی تھی میں ان کو نکال لایا ، ان کی ماں نے دیکھا تو بیتاب ہوکر سر پر چکر کاٹنے لگی ۔ حضور ﷺ نے فرمایا فوراً جاؤ ان بچوں کو وہیں رکھ آؤ جہاں سے لائے ہو ۔ ( اُسوۂ رسول اکرم )
اسی طرح ایک اور واقعہ سے رسول اکرم ﷺ کا جانوروں کے تیں جذبۂ ترحم ظاہر ہوتا ہے جسے مولانا ڈاکٹر عبدالحی نے ابوداؤد کے حوالہ سے بیان کیا ہے ۔ ایک دفعہ حضور ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ بھوک سے بلبلا رہا تھا آپ نے شفقت سے اُس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور اُس کے مالک کو بلاکر فرمایا اس جانور کے بارے میں تم خدا سے نہیں ڈرتے ‘‘۔
آپ ﷺ صغر سنی کے زمانے سے ہی جانوروں کی نگہبانی کرتے تھے چنانچہ جب آپ ؐ حضرت بی بی حلیمہؓ کی کفالت میں تھے اپنے دودھ شریک بھائی کے ساتھ بکریاں چرایا کرتے تھے ۔ ان جانوروں کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتے یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام نبیوں کو گلہ بانی پر مامور کیا تاکہ ان میں صبر و تحمل کا جذبہ فروغ پائے جوکہ اُمت کی اصلاح کے لئے ضروری ہے ۔ بکریاں بڑی ناصبور ہوتی ہیں کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر ان کو ایک جگہ جمع کرنا ایک کار دارد ہوتا ہے اسی طرح کسی گم کردہ راہ اُمت کو راہ راست پر لانے کے لئے صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے گلہ بانی کے ذریعہ نبیوں کو صبر و تحمل کی تربیت دی ۔ اسی طرح آپؐ بھی اس مرحلہ سے گذرے ۔ آپؐ اپنے ہاں جانور رکھتے تھے اور ان کی پوری طرح نگہداشت بھی کرتے تھے ۔ زرقانی علی الراہب میں لکھا ہے کہ آپؐ کی ملکیت میں سات گھوڑے ، پانچ خچر ، تین گدھے اور دو اونٹنیاں تھیں ۔
سرکار دوعالم ﷺ کے پردہ فرمانے کے وقت جو سواری کے جانور موجود تھے ان میں ایک گھوڑا تھا جس کا نام ’’الحیف ‘‘ تھا ۔ ایک سفید خچر تھا جس کا نام ’’دلدل ‘‘ تھا یہ جانور بے حد عمر رسیدہ تھا اور آخر میں اندھا بھی ہوگیا تھا ۔ اس کے باوجود آپؐ اسے برداشت کرتے رہے اس سے سرکار مدینہ کا جذبہ ترحم کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مذکورہ جانوروں کے علاوہ ایک عربی گدھا تھا جس کا نام ’’مفیر‘‘ تھا ۔ ایک اونٹنی ’’قصوا‘‘ بھی تھی جس کی پشت پر بیٹھ کر آپؐ نے خطبۂ حجۃ الوداع دیا تھا ۔ ( عبدالمصطفیٰ اعظمی ۔ سیرت مصطفیؐ )
جانور بھی حضور اکرم ﷺ کے جذبہ ترحم سے بخوبی واقف تھے وہ آپؐ کی بارگاہ میں مشکل کشائی کے لئے فریاد کرتے ۔ ( مشکوٰۃ )
چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سرورعالم ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف فرما تھے ۔ آپﷺ کو دیکھ کر وہاں موجود ایک اونٹ زور زور سے چلانے لگا ، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ سرکار دوعالم ﷺ اونٹ کی حالت زار دیکھ کر متاثر ہوگئے۔ آپؐ بطور دلاسہ اس کی کنپٹی پر دست شفقت پھیرا ، اونٹ خاموش ہوگیا ۔ حضور ﷺ نے اونٹ کے مالک کو طلب کرکے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضہ میں دے کر ان کو تمہارا محکوم بنادیا ہے ۔ لہذا تم پر لازم ہے کہ ان جانوروں پر رحم کرو ۔ اس اونٹ نے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس کی طاقت سے زیادہ ا س سے کام لے کر اس کو تکلیف دیتے ہو ۔ (ابوداؤد )
آپؐ گھوڑے کی سواری پسند فرماتے تھے ۔ اس کے علاوہ اونٹ اور خچر بھی آپؐ کی سواری میں ہوتے تھے ۔ سرکارِ دوعالم ﷺ کے ہاں ایک عربی گدھا بھی تھا جو گھوڑے سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔
روایات میں مذکورہ ہے کہ آپؐ کی ولادت سعادت کے موقعہ پر ہمہ اقسام کے پرندے نغمہ سرا ہوگئے۔ اس طرح ابتداء ہی سے آپؐ کے گوش مبارک پرندوں کی بولیوں سے آشنا تھے ۔
پرندے اور حیوانات آپؐ کے لئے مسخر کئے گئے ۔ ( مشکوٰۃ )
پرندے اور جانور عظمت اور برتری مصطفیؐ کے قائل تھے اُنھیں یقین تھا کہ آپؐ ان کی حاجت روائی کریں گے ۔ سرورِ کائنات ﷺ شافی تھے کیا انساں کیا جانور سب آپؐ سے مستفید ہوئے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک اونٹ دیوانہ ہوگیا کسی کو قریب نہ آنے دیتا ہر ایک کو کاٹ کھانے دوڑتا ۔ آپؐ بے خوف اس کے قریب چلے گئے اور شفقت کے ساتھ اس کی پشت پر ہاتھ پھیرا وہ بھلا چنگا ہوگیا ۔
جانور بھی حضورؐ کی رسالت کے قائل تھے چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک اعرابی آپؐ کے سامنے ایک گوہ پیش کی اور شرط رکھی کہ اگر وہ آپؐ کی رسالت کی گواہی دے تو وہ مسلمان ہوجائے گا ۔ اس گوہ نے سرکار دوعالم ﷺ کے استفسار پر آپؐ کی رسالت کی گواہی دی اور اس کا مالک اعرابی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا ۔ (سیرت مصطفی) آپؐ جانوروں کے تیں ہمیشہ جذبہ ترحم رکھتے تھے ان کی حاجت روائی کرتے ۔ طبرانی نے الکبیر میں اور ابونعیم نے اُم سلمہؓ سے روایت کی کہ ایک دفعہ آپؐ صحرا میں تھے آپؐ نے سُنا کہ ایک ہرنی نے آپؐ کو مخاطب کرکے کہا کہ مجھے اعرابی نے دودھ پیتے بچوں سے چھڑاکر اس کھونٹ سے باندھ دیا ہے آپ مجھے آزاد کردیجئے بچوں کو دودھ پلاکر آجاؤں گی ۔ حضورؐ نے بشرط واپسی ہرنی کو آزاد فرمایا ۔ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلاکر لوٹ آئی ۔ اس اثناء میں اعرابی آگیا ۔ آپؐ نے اس سے ہرنی کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اعرابی نے ہرن کو چھوڑ دیا ۔ ہرنی نے سرکار دوعالم ﷺ کی شفقت اور محبت سے نہال ہوکر اشھدان لاالہٰ وانک رسول ﷲ پڑھتی اُچھلتی کودتی چلی گئی ۔ (الخصائص الکبریٰ)