حکومتوں کے سخت فیصلے ‘تعاون ضروری

   

سنبھل سنبھل کے قدم اُٹھانا مرا اُصولِ سفر ہے لیکن
تری نظر کا ملے سہارا تو لڑکھڑانا بھی جانتا ہوں
حکومتوں کے سخت فیصلے ‘تعاون ضروری
کورونا وائرس نے ساری دنیا میں تہلکہ مچاکر رکھ دیا ہے ۔ لوگ اس کے نام سے ہی خوفزدہ ہونے لگے ہیں۔ اب تک 13 ہزار سے زائد افراد اس وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل ہوگئے ہیں۔ لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ ساری دنیا میںاس وائرس کی وجہ سے ایک قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ حکومتیں متفکر ہیں اور عوام کو اس سے بچانے کیلئے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اس وائرس نے اب بتدریج اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے ۔ اب تک 324 افراد اس سے ہندوستان میں متاثر ہوئے ہیں اور 7 اموات بھی ہوچکی ہیں۔ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اس وائرس پر قابو پانے کیلئے مختلف اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ آج وزیراعظم نریندرمودی کے معلنہ جنتا کرفیو کا اہتمام کیا گیا ۔ یہ کرفیو سارے ہندوستان میں صد فیصد کامیاب رہا ہے ۔ عوام نے اس فیصلے کی مکمل تائید کی ہے اور انہوں نے گھروں میں رہنے ہی کو ترجیح دی ۔حکومت نے ہجوم سے بچنے کی بھی عوام کو ہدایت دی ہے اور اسی ہدایت کے پیش نظر عوام نے بھی خود کو گھروں تک محدود رکھا ۔ حکومت کے فیصلے پر عوام نے جس قدر مثبت رد عمل کا اظہار کیا تھا اس سے حکومت کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ملک بھر میں مزید سخت اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا سوال ہے اس نے ملک کے جملہ 75 اضلاع میں مکمل لاک ڈاون کا اعلان کردیا ہے ۔ کئی ریاستوں نے اپنے اپنے طور پر ساری ریاست کو بند کردینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کچھ ریاستوں میں بیشتر اضلاع میں بند کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح حکومت نے عوامی حمل و نقل کو معطل کردینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے لوگ ایک سے دوسرے مقام کو سفر نہیں کرپائیں گے اور وائرس کی منتقلی بھی ممکن نہیں ہو پائے گی ۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں مسافر بردار ٹرینوں کو معطل کردیا گیا ہے ۔ بین ریاستی بس خدمات کو روک دیا گیا ہے اور تمام شہروں میں میٹر ٹرینوں کی آمد و رفت بھی روک دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی اقدامات حکومتوں کی جانب سے آئندہ وقتوں میں کئے جاسکتے ہیں۔
جہاں تک عوام کا سوال ہے انہیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہوگی کہ حکومت کے جو بھی اقدامات ہیں وہ صرف عوامی حفاظت کیلئے ہیں اور یہ عوام کے حق میں عائد کی جانے والی پابندیاں ہیں۔ ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں اگر خدانخواستہ اس وائرس نے شدت اختیار کرلی تو اس سے جو نقصان ہوگا اس کا ابھی سے اندازہ کرنا بھی مشکل ہوگا ۔ جانی نقصان سے بچنے کیلئے یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ان اقدامات کا ملک کی معیشت پر بھی منفی اثر ہوگا اور اس کا حکومتوں کی جانب سے اعتراف بھی کیا جا رہا ہے ۔ حکومتیں معیشت پر ہونے والے نقصان سے زیادہ عوام کے جان و مال کے نقصان سے بچنے کیلئے ایسے اقدامات کر رہی ہیں۔ حکومتوں کیلئے عوامی جانی نقصان کو ٹالنا اور اس سے بچنا ایک اہم مرحلہ ہے اور جو اقدامات کئے جا رہے ہیںان سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ صورتحال ابھی اتنی زیادہ سنگین نہیں ہوئی ہے لیکن آئندہ وقتوں کے تعلق سے جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اگر ابھی سے یہ احتیاط کی جائے تو عین ممکن ہے کہ ہم ایک بڑے نقصان اور تباہی سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ اپنے محدو د انفرا اسٹرکچر کے باوجود ہندوستان اگر عوام حکومتوں کے اقدامات کا ساتھ دیں تو اس وائرس کے خلاف کامیاب ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعہ ساری دنیا کو ایک پیام دیا جاسکتا ہے ۔ ایسا کرنے سے ساری دنیا میں ہندوستان اور ہندوستانی عوام کے عزم کا اظہار ہوسکتا ہے ۔
حکومتوں کے اقدامات کو منفی نقطہ نظر سے دیکھے بغیر اس میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتوں کی جہاں تک بات ہے وہ بھی اپنے طور پر عوام کو اور خاص طور پر غریب اور مزدور پیشہ عوام کو مشکلات سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے اپنے اپنے عوام کو راحت پہونچانے کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان ضرور کیا گیا ہے لیکن مرکزی حکومت کو بھی اس میں فراخدلی سے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستوں کی حوصلہ افزائی کیلئے مرکز کو فنڈزکی اجرائی میں فراخدلی دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام بھی پورے حوصلے کے ساتھ حکومت کے اقدامات کی تائید کرسکیں اور حکومت کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے انہیں کامیاب بناسکیں۔