ہندوستان ایک وسیع و عریض جمہوری ملک ہے ۔ ملک میں ہمہ جماعتی سیاسی و جمہوری نظام ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت قرار دی جاتی ہے ۔ یہاں ملک میںجہاں ایک جماعت کی حکومت ہوتی ہے تو کئی ریاستوں میں دوسری جماعتوں کو عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ حکمرانی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کی انفرادیت ہے ۔ اسی انفرادیت کی وجہ سے کئی جماعتیں اس ملک میں قائم ہوتی ہیں ۔ پنپتی ہیں اور پھلتی پھولتی ہیں۔ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلاف رائے اور نظریاتی اختلاف بنیادی بات ہے تاہم حکومت اور اپوزیشن کے مابین اہم امور اور مسائل پر ہمیشہ ہی اتفاق رائے بھی رہا ہے ۔ چاہے بیرونی طاقتوں کے خلاف متحدہ رائے کا اظہار ہو یا پھر ملک کی سرحدات کا مسئلہ ہو یا پھر ملک کی ترقی اور معاشی بہتری کا مسئلہ ہو ۔ حکومت کی تجاویز کو اپوزیشن بھی قبول کرتی رہی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کو حکومتوں نے بھی اپنے مسودہ قانون میں شامل کیا ہے ۔ یہ روایت آزادی کے بعد سے چلی آ رہی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ہندوستانی سیاست کی روایات اور روش ہی بدل کر رہ گئی ہے ۔ سیاسی اختلافات اور نظریات کو شخصی دشمنی کا رنگ دیا جا رہا ہے ۔ ایک دوسرے کے اختیارات اور دائرہ کار کو نہ صرف چیلنج کیا جا رہا ہے بلکہ ان پر تسلط جمانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں اہم امور پر تال میل ہونا چاہئے ۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود مل کر کام کرنے کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا ہوتا رہا ہے ۔ اب نئی روایات میں حالات کو بدلا جا رہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اختلاف رائے ذاتی اور شخصی مخاصمت کا رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اور دونوں کے مابین دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں جو جمہوریت کے استحکام کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ اختلاف رائے رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے اپوزیشن کا احترام کیا جانا چاہئے اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اختیارات کو تسلیم کیا جانا چاہئے ۔
آج ملک کی نئی پارلیمنٹ عمارت کا وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں افتتاح عمل میں آیا ۔ جہاں اس افتتاح میں 25 جماعتوں نے شرکت کی ہے وہیں 20 جماعتوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ بھی کیا ہے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح صدر جمہوریہ شریمتی دروپدی مرمو کے ہاتھوں کیا جانا چاہئے تھا ۔ حکومت نے وزیر اعظم کے ہاتھوں افتتاح کو حق بجانب قرار دیا ہے ۔ حکومت اپنے موقف پر اٹل رہی اور اپوزیشن جماعتوں کے موقف میں بھی کوئی نرمی نہیں دیکھی گئی ۔ حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ جیسی جمہوریت کی مقدس علامت کی افتتاحی تقریب میںتمام اپوزیشن جماعتوںکو شامل کرنے کیلئے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے کوئی کوشش نہیں کی گئی اور یہ حکومت کے اقتدار کے زعم کا نتیجہ ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت سے اختلاف کو پارلیمنٹ عمارت کے افتتاح سے دور رکھتے ہوئے اپنے اعتراضات و تحفظات کے باوجود افتتاحی تقریب میںشرکت کرسکتی تھیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ وہ بھی اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی پارلیمنٹ عمارت کی افتتاح کے معاملہ میں بضد رہیں۔ حکومت اوراپوزیشن دونوں ہی کا رویہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والا رہا ہے اور یہ پارلیمنٹ عمارت کے افتتاح کے معاملے میں نہیںہونا چاہئے تھا۔ پارلیمنٹ کی عمارت اس ملک کی جمہوریت کی علامت ہے اور اس کو سیاسی اختلافات سے بالاتر رکھنے کی ضرورت تھی ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی فریق نے یہ احساس نہیں کیا ۔
ایک دن قبل دہلی میں نیتی آیوگ کا اجلاس منعقدہوا ۔ ملک کی گیارہ ریاستوں کے چیف منسٹروں نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی ۔ یہ بھی مرکزی حکومت سے اختلافات کا نتیجہ رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے چیف منسٹرس کی وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے نیتی آیوگ کے اجلاس سے دوری بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں کا ثبوت ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن سبھی کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ وہ ملک کے جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔ اس کے فریق ہیں اور حصہ دار ہیں۔ دونوں ہی فریقین کو اپنے اپنے موقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے جمہوریت کو مستحکم کرنے والا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔