حکومت نے ٹوئٹر سے درخواست کی ہے کہ وہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے ”دہشت گردی اور اسلام“ کے ٹوئٹ پر روک لگائے

,

   

سال2015میں عرب خواتین کے خلاف جارحانہ طرز کے ٹوئٹس ایک او ر مرتبہ شدید ردعمل کا باعث بنے ہیں
نئی دہلی۔مذکورہ برسراقتدار این ڈی اے حکومت نے مائیکر و بلاگینگ سائیڈ ٹوئٹر سے استفسار کیا ہے کہ وہ سال 2015میں بی جے پی رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا کی جانب سے کئے گئے توہین آمیز ٹوئٹ کو فوری اثر کے ساتھ ہٹائیں نیوز 18کی خبر کے مطابق مذکورہ ٹوئٹ میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا گایاتھا۔

وزیراعظم نریندر مودی کے پسندیدہ کے طو رپر پہچانے جانے والے بنگلورو کے رکن پارلیمنٹ کے نازیبا ٹوئٹ نے بھگوا پارٹی کے لئے عالمی سطح پر توہین کا سامنا اکٹھا کیاہے۔

سوریہ کے ٹوئٹ کا کہنا ہے کہ ”دراصل حقیقت بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ مگر دہشت گرد کا ضرور مذہب ہوتا ہے‘ اور ایسے کئی معاملات میں یہ اسلام ہے“۔

مذکورہ وزرات برائے الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی(ایم ای ائی ٹی وائی) نے بتایاجارہا ہے کہ 28اپریل کے روز ٹوئٹر سے سوریہ کے ٹوئٹ کو ائی ٹی ایکٹ 69اے کا حوالہ دیتے ہوئے ہٹانے کی درخواست کی ہے۔

سوریہ کا پیغام ان قابل اعتراض121ٹوئٹس میں سے ہے جس کو سائیڈ سے ہٹانے کا استفسار کیاگیاہے۔عرب کی خواتین کے خلاف ایک اور توہین امیز ٹوئٹ مذکورہ 29سالہ رکن پارلیمنٹ کا سال2015سے سوشیل میڈیا پر منظرعام میں آیا ہے‘ جس کی وجہہ سے عرب ممالک سے تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

عرب خواتین کے متعلق کئے گئے توہین آمیز پوسٹ کو مذکورہ بھگو اپارٹی اس وقت ہٹانے پر مجبور ہوگئی جب انہیں تنقید وں کا بالخصوص دوبئی نژاد کاروباری خاتون نورا الگھوریر‘ کویت کی وکیل اور ڈائرکٹر انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مجیب الشارقہ اور ویہاں تک شارجہ کے شاہی خاندان کی رکن شہزادی ہند القاسمی نے برہمی کا اظہار کیا۔

اس ٹوئٹ میں سوریہ نے کہاتھا کہ ”95فیصد عرب خواتین حوس کی وجہہ سے بچے پیدا کرتی ہیں اس میں کوئی جذبہ محبت نہیں ہوتی ہے“

https://twitter.com/AlGhurair98/status/1251846220663963648?s=20