حکومت کو صرف آمدنی کی فکر

   

کرن تھاپر
آیا شراب کے تئیں ہندوستان حکومت کا رویہ اس کی پالیسیوں سے متضاد نہیں ہے؟ آیا یہ فیصلہ غیر فراخدلانہ نہیں ہے؟ یہ تاریخ کی فاش غلطی نہیں ہے؟ یا حقیقت میں یہ تینوں درست ہیں اور درست ہیں تو کیوں؟ یہ ایسا سوال ہے جو سمجھنا مشکل ہے اور حکومت کا یہ فیصلہ ہم میں سے کئی لوگوں کے لئے پریشانی و مشکلات کا باعث بنا ہوا ہے۔
میرا یہی ماننا ہے کہ حکومت نے شراب کی دکانات کھولنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ شراب پینے سے متعلق ہمارے دستوری نقطہ نظر اور مرکز نے اپنے سرکاری خزانہ یا صندوق کو بھرنے کے لئے جو اہم کردار ادا کیا ہے ساتھ ہی ہمارے دستور کی دفعہ 47 مملکت یا ریاست کو شراب پر پابندی عائد کرنے کے لئے کہتی ہے ان تمام کے درمیان بہت تضاد پایا جاتا ہے۔
یہ اخلاقی و طبی اعتبار سے اور غیر قانونی مقصد ہے جس کا ہمارے ملک کے عظیم ہیروز نے تعین کیا تھا۔

لیکن شراب کی ہر بوتل آمدنی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس لئے ہم نے اسے حکومتی فنڈز کے ایک اہم عنصر کی حیثیت سے جذب کرلیا ہے۔ جہاں تک مزاج کا سوال ہے یہ صرف ایک اخلاقی سمت ہے قانون نہیں سوائے گجرات کے۔ مثال کے طور پر دہلی میں شراب پر 14.1 فیصد ٹیکس ہے اور شہری حکومت نے شراب سے جاریہ سال ہونے والی آمدنی کے بارے میں یہی پیش قیاسی کی ہے۔
اس میں کوئی حیرت میں مبتلا ہونے کی بات نہیں ہے۔ حکومت کی پالیسی ان دو Poles یا کھنبوں کے درمیان جھول رہی ہے اور وہ ہے پرہیز کی نارمل مثال اور سہل، معتبر ذریعہ آمدنی کی ضرورت۔ اگر ہمیشہ بڑھنے والی آمدنی بھی نہ ہو اور چونکہ سائنسداں بھی اس مسئلہ پر واضح اور سخت موقف اپنانے کے قابل نہیں ہیں اس لئے ہم ان دو قطبوں کے درمیان اچھالے جارہے ہیں۔ بعض وقت تو ہم ایک ہی وقت میں دونوں Poles تک پہنچ جاتے ہیں۔

یہ سادہ سا معالجہ ہماری ان مصیبتوں کی وضاحت کرتا ہے جن میں ہم مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ شروعات کرنے کے لئے ہمیں لاک ڈاون کے ساتھ ہی شراب کی فروخت پر پابندی عائد نہیں کرنی چاہئے تھی۔ دوسرے کسی بھی عزت نفس رکھنے والی جمہوریت میں الکحل کو ایک لازمی شئے یا اشیائے ضروریہ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جسے غذائی اشیاء اور ادویات کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔
ویسے بھی لوگ اسے پسند کرتے ہیں اسے پینا چاہتے ہیں لیکن افسوس ہندوستانی سیاست میں اخلاقی منظر عام پر آیا اس مسئلہ پر کم از کم ہماری حکومت کا یہ ایقان ہے کہ وہ ہم سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ اسی لئے ہم نے تمام قسم کی الکحل کی فروخت روک دی۔ پانچ ہفتوں بعد جب سرکاری خزانہ ختم ہونے یا دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور اس کا صندوق تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ حکومت نے اپنا ذہن تبدیل کیا۔ حکومت نے فوری الکحل یا شراب فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن اس نے ابتداء میں یہ کہا کہ بمشکل 20 فیصد دکانات کھولنے کی اجازت دی۔ دارالحکومت دہلی میں صرف 150 شراب کی دکانات کو شراب فروخت کرنے کی اجازت دی گئی حالانکہ وہاں شراب کی 863 دکانات ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شراب کی ساری دکانات کھولنے کی اجازت دی جاتی تو بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوتا۔

عقلمند سیاستداں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ 5 ہفتوں تک زبردستی شراب پینے سے روکنے کے بعد جب شراب کی دکانات کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے تو پھر شراب کی طلب غیر معمولی طور پر بڑھ جائے گی بلکہ دھماکہ خیز ہوگی۔ اس نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں ایک نہیں بلکہ دو یا تین گنا دکانات کھلے رکھنے کی اجازت دینی چاہئے تھی۔ اس کے لئے حکومت اختراعی طریقے اختیار کرسکتی تھی۔
اور اگر حکومت حقیقت میں ’’دوگز‘‘ کی سماجی دوری سے متعلق اصول کو لیکر سنجیدہ ہے تو پھر شراب کی دکانات نہ کھولنے کا یہ اچھا بہانہ تھا لیکن ہماری حکومت نے اس کے آف لائنس کی تعداد بڑھانے کی بجائے اس کے متضاد کام کیا۔ غیر معمولی طلب کو دیکھتے ہوئے سپلائی کو اس نے سکڑتے ہوئے چال چلی ہے۔

اور اس کے بعد کیا ہوا جب حکومت نے دیکھ لیا کہ لوگ بہت زیادہ مایوس ہیں وہ بہت کم جاتے ہیں تب دہلی حکومت نے اس کی ادائیگی ہماری رقومات سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی نظریں تو صرف اور صرف اپنے خالی خزانوں کو بھرنے پر تھیں۔ اس لئے کجریوال کی حکومت نے شراب کی دکانات تو کھول دی لیکن اس پر خصوصی کووڈ ۔ 19 کی فیس کی شکل میں 70 فیصد زائد ٹیکس عائد کردیا اور اس نے یہ کام دن کے اجالے میں نہیں کیا بلکہ رات کی تاریکی میں اس کا اعلان کیا۔ اس کی تفصیلات میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت دہلی کا یہ اقدام کس قدر موقع پرستانہ تھا۔
اگر صاف صاف کہا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران ہماری جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔