مرزا نثار علی بیگ
حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ کی ولادت ۴ رجب ۷۲۱ ہجری کو دہلی میں ہوئی ۔ آپؒ کا نام ’’محمد ‘‘کنیت ابوالفتح ، لقب صدرالدین ولی الاکبر الصادق ہے ۔ حضرت بندہ نوازؒ بچپن ہی سے نہایت پاکباز ، طاہر ، پرہیزگار ، صداقت و حقانیت کے علمبردار واقع ہوئے ۔ آٹھ سال ہی کی عمر شریف سے نماز روزہ کا خاص اہتمام کرتے تھے اور بارہ سال کی عمر سے شب بیداری ، ذکر و شغل آپؒ کا معمول بن چکا تھا ۔ آپؒ کو اپنے نانا جان سے سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی اور حضرت خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دہلویؒ کے فضائل وکمائل سن کر خصوصیت کے ساتھ حضرت چراغ دہلویؒ سے غائبانہ عشق ہوگیا تھا ۔ کمسنی اور مسافت کی دوری مانع تھی لیکن آپؒ شرف زیارت کا عزم مصم کرچکے تھے ۔ ۱۵ برس کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ دہلی پہنچ کر جامع مسجد دہلی میں نماز ادا فرمائی ۔ زہے نصیب کہ حضرت چراغ دہلویؒ بھی اسی مسجد میں نماز ادا فرمانے تشریف لائے ۔ حضرت بندہ نوازؒ کی نگاہ حضرت چراغ دہلویؒ پر پڑی اور شرف قدمبوسی کا اشتیاق ہوا اور وارفتہ ہوگئے ۔ چنانچہ ۱۵ رجب ۷۳۶ہجری کو حضرت بندہ نوازؒ اپنے برادر محترم حضرت چندن حسینیؒ کے ہمراہ حضرت چراغ دہلویؒ سے شرف بیعت سے مشرف ہوئے ۔ حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی ؒکے وصال کے بعد حضرت بندہ نوازؒ بعمر ۳۶ سال مسندِ جانشینی پر متمکن ہوئے اور اپنے مریدین و متوسلین کو رشد و ہدایت فرمانے لگے اور بحمداللہ ۴۳ سال تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ۔ والدۂ معظمہ کے اصرار پر چالیس سال کی عمر شریف میں آپ نے حضرت مولانا جمال الدین مغربی کی صاحبزادی بی بی رضا خاتون سے نکاح فرمایا اور اُن کے بطن سے دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔ آپؒ نے اپنی حیات شریفہ میں جملہ ۱۰۵ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ شریعت و طریقت کے جامع ، حقیقت و معرفت کے محرم راز حضرت بندہ نوازؒ ، رسول خیرالانام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عاشق زار محبوب اُمتی تھے۔ نماز پنجگانہ باجماعت ادا فرماتے اور ساتھ ساتھ نوافل یعنی اشراق و چاشت و اوابین اور تہجد کی بھی پابندی فرماتے ۔ بعد فجر درس تفسیر دیا کرتے ۔ حضرت بندہ نوازؒ حنفی المذہب ، سنی سادات اور دین متین کی سختی سے پابندی کرنے والے ولی باکمال بزرگ گذرے ہیں۔ آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ رات کو باوضو سونا چاہئے ، سچے خواب نظر آئیں گے ۔ تنہا گھر سونا اچھا نہیں ، جس مکان کو دروازہ نہ ہو ایسے مکان میں سونے کی ممانعت ہے ، طلوع صادق پر سونے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ زمین حق تعالیٰ سے اُس شخص کے بارے میں شکایت کرتی ہے ۔ عصر کے بعد سونا اچھا نہیں ۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ دنیا مجمسۂ آفات و مصائب ہے ، بادشاہ ہو یا فقیر جو بھی دنیا میں آیا ہے وہ ان مصیبتوں سے بچ نہیں سکتا ۔ تمہاری سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرو ۔ مال و زر کی ہوس نہ کرو ۔ رات کو خدا کی عبادت کرو اور دن کو خدمتِ خلق ۔ آپ ؒ کا وصال ۱۰۴ سال کی عمر میں ۱۶ ؍ ذیقعدہ ۸۲۵ ہجری کو ہوا ۔