حیدرآبادی عوام کی عجیب و غریب سوچ

   

سید اسحاق
میں 1969 سے لے کر آج تک کے حالات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ 1969 ء میں علحدہ تلنگانہ تحریک زوروں پر تھی جو مسلسل ایک سال چلی جس میں مسلسل ایک سال تعلیم نہیں ہوئی اور کئی سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ اس دوران جائیداد کی رجسٹری
(Property Rgeistration Office)
کے دفتر کو نذر آتش کردیا گیا اور تمام ریکارڈ نذر آتش ہوگئے۔ وہ بھی صرف قدیم شہر کے علاقے کے۔ اگر قدیم شہر کی عوام کو 1947 ء سے لے کر 1969 ء کا جائیداد ریکارڈ چاہئے تو دفتر معذرت چاہتے ہوئے ریکارڈ موجود نہیں تصدیق کے ساتھ دیتا ہے ۔ بڑے بزرگوں سے یہ معلوم ہوا کہ اس علحدہ تلنگانہ تحریک کے سرغنہ کی مقبولیت کو دیکھ کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ آندھراپردیش نے قدیم شہر حیدرآباد کے مشہور غنڈہ صفت پہلوان سے معاہدہ کیا کہ علحدہ تلنگانہ تحریک کا جلسہ جو رویندر بھارتی تھیٹر میں منعقد ہونے والا ہے ، اسے رکوائیں اور نئی گاڑی تحفے میں لیں۔ اس شخص نے وزیر اعلیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے جلسہ گاہ جا کر تحریک کے صدر کو بھری محفل میں طمانچہ رسید کیا جس کی بدولت افراتفری پھیل گئی اور جلسہ منسوخ ہوگیا۔ جب اس تحریک کے صدر کو کانگریس نے وزیر اعلیٰ نامزد کیا اس کے دور اقتدار میں معمولی نوعیت کے حادثہ پر پولیس اور عوام کے درمیان نفرت بھڑکائی گئی کیونکہ حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب کا گہوارا تھا جسے بعد میں فساد میں تبدیل کیا اور پہلی بار کرفیو نافذ کیا گیا اور کرفیو کے دوران اس غنڈہ صفت پہلوان کو اس کے گھر میں پولیس گھس کر اس کا قتل کردیتی ہے جو آج کل کے اعتبار سے انکاؤنٹر کہلاتا ہے ۔ اُس وقت سے اقلیتی سیاسی جماعت حکومت کے اشارہ پر کام انجام دیتی آرہی ہے اور اپنے ذاتی مفاد پورے کرتی ہے۔ تقریباً 50 سال سے قدیم شہر کی بلدیہ اسمبلی اور لوک سبھا میں نمائندگی کر نے کے باوجود قدیم شہر کا علاقہ پسماندہ ہے ۔ پانی ، بجلی ، سڑکیں غیر معیاری ہیں ۔ سرکاری مدرسوں اور دواخانوں کا فقدان ہے ۔ بابری مسجد کو منظم طریقے سے شہید کیا گیا اور اس وقت سوائے حیدرآباد کے ہندوستان کے تمام علاقوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر احتجاج کیا گیا اور تعجب اس بات پر ہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے صدر جو حیدرآباد سے تعلق رکھتے تھے، استعفیٰ نہیں دیا، احتجاج نہیں کیا ۔ الٹے یہ اعلان کیا کہ ہماری وزیراعظم سے بات ہوچکی اور انہوں نے وعدہ اور تیقن دیا کہ اسی مقام پر دوبارہ مسجد تعمیر کرواؤں گا۔ اگر مسجد تعمیر کروانی تھی تو شہید ہونے کیوں دیا ؟ اقلیتی سیاسی جماعت 15 سال تک کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا اور جب علحدہ تلنگانہ تحریک دوبارہ شروع ہوئی اس وقت مکمل خاموشی اختیار کی جاتی رہی کیونکہ ان دنوں یہ افواہ گشت کر رہی تھی کہ حیدرآباد کو یونین ٹریٹری
(Union Territory)
کا درجہ دیا جائے گا اور حیدرآباد علاقہ میں 14 ممبر آف اسمبلی آتے ہیں جس میں سے سات اس اقلیتی جماعت کے ہیں، اس لئے یہ جماعت غفلت میں تھی ایسا اگر ہوجاتا ہے تو اقلیتی جماعت کا وزیر اعلیٰ نامزد ہوجائے گا ۔ علحدہ تلنگانہ کا اعلان ہونے تک یہ لوگ خاموش تھے اور جیسے ہی علحدہ تلنگانہ کا اعلان ہوا اور ٹی آر ایس اقتدار میں آئی اچانک کانگریس سے اختلافات ہوگئے اور ٹی آر ایس کے اتحادی بن گئے ۔ ٹی آر ایس اقلیتوں کو خوش کرنے پہلی حکومت میں پہلے نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ اقلیتی شخص کو دیا اور دوسری بار اقتدار ملنے پر پھر اسے وزیر داخلہ کے عہدہ پر ترقی دی اور دوسری جانب مرکزی حکومت کے تمام غلط فیصلوں میں اس کا ساتھ دیتی آرہی ہے ۔ چاہے نوٹ بندی ہو تین طلاق معاملہ ہو ، سی اے اے یا این آر سی ہو۔ ٹی آر ایس کے اقتدار میں آنے کے بعد آلیر انکاونٹر ہوتا ہے جس میں پانچ زیر دریافت قیدیوں کو جو اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے، پولیس انہیں ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑے لوگوں کو انکاونٹر کے نام پر قتل کردیتی ہے اور اقلیتی سیاسی جماعت اُف تک نہیں کرتی ۔ پھر عنبر پیٹ علاقہ میں سڑک کی توسیع کے نام پر قدیم مسجد یکخانہ کے ساتھ حضرت عباسؓ کے نام کا عاشور خانہ شہید کردیا جاتا ہے ، اس پر بھی اقلیتی سیاسی جماعت خاموشی اختیار کرتی ہے ۔ تلنگانہ حکومت اپنے نئے سکریٹریٹ کی تعمیر کرنے کے سلسلے میں قدیم سکریٹریٹ کو منہدم کرتی ہے جس میں دو مساجد شہید اور ایک مندر منہدم کردی جاتی ہے ، اس پر بھی اقلیتی سیاسی جماعت خاموش ہے ۔ ریاستی حکومت پہلے اس واقعہ پر ٹال مٹول سے کام لیتی رہی پھر عوامی احتجاج کو دیکھتے ہوئے ایک شاندار مسجد اور مندر تعمیر کرانے کا اعلان کرتی ہے ۔ چھوٹی تنظیمیں اپنے رسوخ سے نئی سکریٹریٹ کی عمارت کا نقشہ حاصل کرلیتی ہے جس میں مسجد اور مندر کا نام و نشان نہیں ، اس کے باوجود یہی اقلیتی سیاسی جماعت احتجاج کے بجائے عوام سے یہ کہتی ہے کہ ہم نے حکومت سے بات کرلی ہے اور حکومت نے تیقن دیا ہے کہ مسجد اور مندر تعمیر کی جائے گی ۔ ٹھیک اسی طرح وزیراعظم نے بابری مسجد شہید ہونے کے بعد دوبارہ اسی مقام پر مسجد تعمیر ہوگی کہا تھا ؟
جب تک عوام میں مکمل شعور بیدار نہیں ہوتا یہ سیاسی جماعت اس طرح سے بیوقوف بناتی رہے گی اور ریاست میں ٹی آر ایس اور مرکز میں بی جے پی کی ہر ممکن مدد کرے گی اور بی جے پی کے اشاروں پر مہاراشٹرا ، اترپردیش اور بہار میں اپنے زیادہ سے زیادہ امیدوار نامزد کرے گی جہاں پر اقلیتی ووٹ منتشر ہونے سے بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو فائدہ ہوتا ہو۔