’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ پروفیسر ڈی بابو راؤ

   

محبوب خاں اصغر
ہمارا ملک کئی رنگوں، نسلوں، زبانوں ، تہذیبوں اور مذاہب کا گلدستہ ہے جہاں کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ سب کے مساویانہ حقوق ہیں۔ ارتفاء اور فلاح و بہبود سب کے لئے ہے۔ غیر ضروری فروعی مسائل میں اُلجھ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا طریقہ نامناسب ہے۔ ہمیں مختلف سطحوں پر اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔ ہم ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہوکر ہی افہام و تفہیم کا راستہ نکال سکتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار روشن خیال پروفیسر ڈی بابو راؤ نے کیا۔ وہ ’’ حیدرآباد جو کل تھا ‘‘ کے موضوع پر ہم سے بات کررہے تھے۔ انہوں نے بعض غیر اہم مسائل کا پروپگنڈہ کئے جانے پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمارا موضوع بحث بے روزگاری، غربت، تشدد، خون خرابہ اور جرائم وغیرہ ہونا چاہیئے۔
پروفیسر ڈی بابو راؤ 28 مارچ 1939 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم نلگنڈہ ڈسٹرکٹ میں حاصل کی ۔ حصول علم کا سلسلہ بلارم ہائی اسکول میں بھی جاری رہا۔ ان کا ذریعہ تعلیم اردو۔ انگریزی رہا۔ پینتالیس ہزار طلباء میں گوکھلے ایوارڈ کیلئے ان کا انتخاب ہوا۔ چند سال نظام کالج میں بھی رہے۔ 1956تا1959 عثمانیہ یونیورسٹی انجینئرنگ کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اتر اکھنڈ اور نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی ( امریکہ ) سے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ 1960 میں ناگرجنا ساگر پراجکٹ پر کام کیا۔ 1963 تا1993 بحیثیت پروفیسر جامعہ عثمانیہ میں خدمات انجام دیں۔ اور وہیں سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ 1945 تا 1947 کا دور ریاست حیدرآباد کیلئے نازک بھی تھا اور خطرناک بھی۔ ریاست کی بقاء کا سوال بھی پیش نظر رہا۔ ایک ایسے دوراندیش اور مدبر سیاست داں کی ضرورت محسوس کی گئی جو سمجھ بوجھ کا حامل ہو۔ انہوں نے کہا کہ قاسم رضوی موجود تھے مگر کچھ لوگوں کو ان پر اعتماد نہ تھا۔ مجلس چاہتی تھی کہ حیدرآباد آزاد رہے۔ دیسی ریاستوں کے مسائل بھی جوں کے توں برقرار تھے۔ نظام حکومت ایک سیاسی طاقت رکھنے کے باوجود سازش کاشکار رہی۔ ان کے لوگ انگریزوں سے وفاداری کرتے تھے۔ کانگریس اقتدار پر آئی تو کانگریسیوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس سے نظام کی حکومت کو نقصان پہنچا۔ہم نے وضاحت چاہی تو بتایا کہ حکومت نے نظام کو خاطر میں نہیں لایا اور یہ نظام ہی کے خاص لوگوں کی سازش کا نتیجہ تھا۔ اہم معاملات اور سیاسی امور میں مشاورت کیلئے بھی ان کو مدعو نہییں کیا جاتا تھا۔
بہادر یار جنگ کو بھی اس کی تشویش تھی جو آخری وقت تک رہی۔ حکومت میں مجلس کا اثر کم ہوجانے کے سبب قاسم رضوی نے دخل اندازی شروع کی۔ انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نواب سعید احمد خاں چھتاری صدر اعظم تھے۔ وہ ودور بھی بہت نازک تھا۔ اتر پردیش کے رہنے والے ، جاگیر دار گھرانہ سے ان کا تعلق تھا۔ انہوں نے بھی مسلم مفاد کیلئے جدوجہد نہیں کی۔ انہیں صرف اپنے مفادات عزیز تھے۔ انگریز کا ساتھ دیتے رہے۔ نظام حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی باز آبادکاری کی تجاویز انہیں پیش کی گئیں۔ جن پر عمل پیرا ہوکر وہ حیدرآباد کو ایک طاقتور ریاست بناسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے تجاویز کو بالائے طاق ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ اپنے مفادات سب کو عزیز ہوتے ہیں۔ لیکن مفاد عامہ کیلئے اپنے نجی مفاد کو قربان کرنے والے اب نہیں رہے۔ لیکن بہادر یار جنگ نے ہمیشہ عوام اور ریاست کے مفاد کو پیش نظر رکھا۔ ان کے سیاسی عروج اور مقبولیت کی وجہ سے حاسدین مضطرب تھے۔ انہیں یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ ریاست حیدرآباد کے مستقبل کی صورت گری بہادر یار جنگ کے ہاتھوں ہوجائے تو ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ اس خیال کے تحت حاسدین نے انہیں راستے کا پتھر سمجھ لیا۔ اور اعلیٰ حضرت کو باور کروایا کہ بہادر یار جنگ ان کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ سازشی لوگ حیدرآباد کے زوال ہی سے سرگرم عمل رہے۔ اثر و رسوخ بھی رکھتے تھے۔ انگریز اور کانگریس کے مخبر تھے ۔ اس کام کے عوض انہیں علیٰ عہدے دیئے گئے۔ ان کی اولادوں کو وزارتیں دی گئیں۔ یہاں تک سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے سکریٹری بھی بنائے گئے۔ اس کے برخلاف نواب بہادر یار جنگ ریاست حیدرآباد میں مقبول رہنما تھے۔ ہندو اور مسلمان کا اعتماد انہیں حاصل تھا۔ سیکولر ذہن رکھتے تھے۔ مذموم اور قبیح منصوبے کے تحت انہیں زہر دے کر ہلاک کردیا گیا۔ انہوں نے نواب صاحب کی موت کو درحقیقت حیدرآباد کی موت کہا۔
ڈاکٹر ڈی بابو راؤ نے قدیم ریاست حیدرآباد کے روشن رُخ کو اپنی گفتگو کا محور بناتے ہوئے بتایا کہ دکن ( ہندوستان ) میں مسلمانوں کی حکومت سات سو سال پر محیط ہے جس میں آخری دو صدیوں میں آصف جاہی حکمرانی رہی۔ ابتداء ہی سے یہ سرزمین پرامن رہی ۔ امن و چین اور مذہبی رواداری کیلئے اس خطہ کی مثال دنیا میں دی جاتی تھی۔ تمام برادران وطن شیر و شکر کی طرح رہا کرتے تھے۔
ان کے مطابق اتحاد ہی کے سبب ہم نے ہر شعبہ میں ترقی کی منزلیں طئے کی ہیں۔ دانشمندی اور فراست کے ساتھ حالات کو کچھ یوں بنائے رکھا تھا جس میں دم گھٹتا ہی نہیں تھا بلکہ کھل کو سانس لینے کے مواقع تھے۔
جامعہ عثمانیہ کے قیام کے نتیجہ میں ریاست حیدرآباد میں تعلیم کے ساتھ علمی اور اخلاقی قدروں کو فروغ حاصل ہوا۔ روشن خیالی عام ہوئی۔ تدبر اور تدبیر کی سبیل نکالی گئی۔ اس زمانے میں اعلیٰ معیار کے لوگ اس ریاست کی آن بان اور شان تھے۔ انسانیت کی بقاء کیلئے مساعی کی جاتی تھی۔ ایک دوسرے کے ساتھ شریفانہ اور فراخدلانہ سلوک کے سبب ایک خوشگوارفضاء قائم تھی۔
معَادَلت کا ایک ایسا نظام رائج تھا جو سکون قلب دیتا تھا۔ ایک دوسرے پر ایقان اور اعتماد کا یہ عالم تھا کہ آنکھیں بند کرکے معاملات کی جاتی تھی۔ سب و شتم سے حتی الامکان گریز کیا جاتا تھا۔ آج جبر و استبداد کا دور ہے ۔ تعلیم اور فہم و شعور کے باوجود حالات کے صحیح رُخ کا اندازہ کرنا ہمارے لئے دشوار ہوتا جارہا ہے اور ہم زوال کی طرف مائل ہوتے جارہے ہیں۔ اور ہمارے ضمیر کو ذراسی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی ہے۔ یہ ہمارے فاخر العقل ہونے کی علامت ہے۔
انہوں نے پولیس ایکشن کے حوالے سے اپنے لاشعور میں محفوظ کچھ واقعات بھی بیان کئے اور بتایا کہ نلگنڈہ بھی ظالموں کے شر سے محفوظ نہیں تھا۔ فرقہ وارانہ نعرے، اشتعال انگیزی، فساد اور قتل متواتر ہوئے۔ گناہ گار خود کو بے گناہ ثابت کررہے تھے۔ آپسی مخاصمت کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے تھے۔ غلط فہمیاں پیدا کررہے تھے۔ ہندو مسلم اتحاد اور پرامن ماحول میں بدامنی پھیلانے کی سازش کی گئی۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کا مکان اور سازوسامان بھی جلادیئے گئے۔ زیورات اور قیمتی کپڑے ایک صندوق میں بند کرکے کنویں میں ڈال دیئے گئے اور کنٹونمنٹ منتقل ہوگئے۔ دو سال بعد انہوں نے کنویں سے صندوق نکالا ۔ کپڑے مسلسل بھیگنے سے ناقابل استعمال ہوگئے تھے مگر زیورات محفوظ تھے۔ نلگنڈہ میں کئی خاندان متاثر ہوئے۔ کمیونسٹ لوگوں نے پٹواریوں پر حمل کئے۔ پولیس بھی رحم ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ جانوروں ( بھینس ) وغیرہ بھی مار ڈالا…۔
انہوں نے یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کا بڑی خوش دلی سے تذکرہ کیا اور بتایا کہ قطب شاہی حکمرانوں نے محرم کو ایک بین قومی تہوار کا رنگ دے دیا تھا۔ ان تقاریب کا اہتمام بانی شہر قلی قطب شاہ نے کیا تھا۔ اسی نے پہلا علم بٹھایا تھا ۔محرم کا چاند دیکھتے ہی حکمران وقت اور ان کے ماتحتین شاہی لباس پہننا ترک کردیتے تھے۔ خوشیاں منانے اور گوشت کھانے سے احتراز کیا جاتا تھا۔ دستر خوانوں کو وسیع کرلیا جاتا تھا۔ لنگر لگتے تھے۔ اور خادموں پرصدقوں اور خیرات کی بوچھار یں ہونے لگتی تھیں۔ عاشور خانوں کو بقعہ نور بنایا جاتا تھا۔ عید میلاد کے علاوہ بسنت، دسہرہ، دیوالی وغیرہ بھی سرکاری سطح پر منائے جاتے تھے۔ ایک دوسرے کی تقاریب، تہواروں میں بلا تفریق مذہب شریک ہونا ایک تہذیب تھی۔ مرد وار عورتیں نئے لباس پہنتے۔ عورتیں بناؤ سنگھار پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ سلاطین کی بے تعصبی کا یہ سلسلہ آصف جاہی سلاطین تک جاری رہا۔ اسی روایت پر عمل پیرا ہونے کی آج بھی شدید ضرورت ہے۔
جناب بابو راؤ صاحب نے اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کیا اور کہا کہ انہیں جو اساتدہ میسر آئے ان میں قابل ذکر تقی علی خان، راجورکر اور احمد حسین ہیں۔ قادری صاحب، اسمعیل صاحب ، فخر الدین صاحب اور انصاری صاحب کا شمار بھی قابل اساتذہ میں ہوتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے ہر طالب علم کی زندگی ابتداً عام آدمی کی طرح شروع ہوتی ہے لیکن اس کی لیاقت سے اس کی آئندہ زندگی کا سرغ لگ ہی جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے عہد کے اساتذہ طالب علموں میں پوشیدہ اعلیٰ قابلیت کے جوہر کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ تاہم کمزور طلباء ان کی ترجیحات میں شامل ہوتے تھے ۔ ان پر اپنی توانائیاں صرف کرکے انہیں اس قدر نکھارا جاتا تھا کہ انہیں مستقبل میں ترقیات کیلئے آسانیاں پیدا ہوتی تھیں۔ اپنے طلباء کے اخلاق ، تربیت اور عادات سے کبھی بھی بے تعلق نہیں ہوتے۔ طلباء کی تربیت کا انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ وہ اپنی دانشمندی اور دوراندیشی کے سبب طلباء کے ساتھ ان کے متعلقین کی نظروں میں بھی بہت وقعت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی کمسنی کے عہد کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اکثر لوگوں میں بوڑھی عورتیں مستور رکھتیں انہیں فکر ہوتی تھی کہ ہمسائے میں کون بھوکا ہے۔ کس کو کپڑے کی ضرورت ہے۔ کس کے گھر میں جوان لڑکیاں شادیوں کیلئے بیٹھی ہوئی ہیں۔ معاشی تنگی کے سبب پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں اکثر خواتین ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتیں۔ ان رویوں کی وجہ سے ارتکاز، اعتماد اور اعتقاد کا خوشگوار ماحول تخلیق پاتا اور لوگ بدستور ملا کرتے تھے۔ اب ایسا محبت آمیز ماحول دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔
اُسی عہد میں والدین کے رول سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں شفاف ماحول کے سبب والدین کو کوئی خاص رول ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ تمام بچے جبلی طور پر انتہائی شریف ہوا کرتے تھے۔ ذکی اور طباع ہونے میں کوئی کلام اس لئے بھی نہیں تھا کہ سوائے لکھنے پڑھنے کے کوئی کام نہیں رہتا تھا۔ اسی ریاضت اور متواتر غور و فکر سے بچوں میں مثبت انداز فکر پیدا ہوتا تھا۔
خاندان کی بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد بچوں کو درگذر کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ خود بھی وضع دار تھے اور بچوں کو بھی وضعداری سکھاتے تھے۔ بطور میراث وہ اپنے بچوں میں ایسی خوبیوں کو منتقل کرتے تھے جنہیں اپناکر وہ معاشرہ کا ایک عزت دار فرد کہلا تا تھا۔ آداب دستر خوان‘ بالخصوص سکھائے جاتے تھے۔ بزلہ سنجی اور ظرافت کو بھی اختیار کیا جاتا تھا مگر حدود کو پھلانگنا سخت ممنوع تھا۔ انہوں نے برسبیل تذکرہ کیا کہ آج اہل علم اور اہل ہنر کی بہتات ہے مگر بچوں پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اساتذہ بچوں کے والدین بچوں کی برائیوں پر توجہ نہیں دیتے اور تکرار معصیت ان کے ضمیر کو مردہ کردیتی ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں انہوں نے دو ٹوک جواب دیا کہ جب تک معاصرین متقدمین کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے ملک میں امن و سکون عنقا ہوجائے گا۔ کسی بھی مسئلہ پر فریقین میں قال و قیل سے حالات سنگین ہوجاتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر ملک کی سلامتی کو چیلنج کرنے کی کوشش کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔ آج جو نظارے دیکھے جارہے ہیں وہ ہم سب کو مضطرب کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حقوق انسانی اور مساوات کے تئیں تدبر کریں۔ حکومت کو بھی چاہیئے کہ اپنی دور بین نگاہوں سے تمام حالات کا پتہ چلائے اور فراخدلی کے ساتھ تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام کرے۔