خاموشی ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتی

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

کرناٹک کئی وجوہات سے ہندوستان اور دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔اس کی اپنی ایک منفرد پہچان اور شناخت ہے سب سے اہم وجہ اس کا دارالحکومت بنگلورو ہے ۔ بنگلورو کو ہندوستان کا مسلمہ آئی ٹی دارالحکومت یا ہندوستان میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی راجدھانی کہا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکہ میں ’’ بنگورو ‘‘ کاروبار و سرمایہ کیلئے پرواز کا ایک خطرناک لفظ بن گیا ہے۔ کاروبار اور سرمایہ کے زبردست بہاؤ نے بنگورو کو نوجوان پیشہ وارانہ ماہرین کیلئے کام کا ایک باوقار مقام بنایا ہے ۔ خاص طور پر انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبہ میں بنگلورو پیشہ وارانہ ماہر نوجوانوں کی پسندیدہ جگہ یا مقام ہے فی کس اوسط اسٹیٹ ڈومیسٹک پراڈکٹ ( موجودہ قیمتوں میں ) کرناٹک کا ملک کی تمام ریاستوں میں چوتھا مقام ہے ۔
یہ تمام اور دوسری چیزوں کے باعث کرناٹک کو ملک کی سرفہرست 5 ریاستوں میں شامل رہنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے ۔ آیئے سال 2019 – 21 کے دوران تعلیم اور صحت کے شعبوں سے متعلق اشاریوں کا جائزہ لیتے ہیں ( ذریعہ دی ہندو مورخہ 25 اپریل 2023 ) اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ کرناٹک کوملک بھر میں صحت و تعلیم کے شعبہ میں ملک بھر کی ریاستوں میں کونسا مقام یا درجہ حاصل ہے ۔ ایسی لڑکیاں اور خواتین جنہوں نے اسکول میں داخلہ لیا ۔ 2024 سال کی ایسی خواتین جن کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہوئیں ( اسی معاملہ میں کرناٹک کو 30 میں سے 18 واں مقام حاصل ہوا ہے ) نومولودوں کی شرح اموات کے معاملہ میں 30 ریاستوں میں سے کرناٹک کو 19 واں درجہ حاصل ہے ۔ ناقص غذا کے باعث ٹھٹھر جانے والے بچوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کرناٹک کو 30 میں سے 24 واں مقام پر رکھاگیا ہے ۔ ضائع ہونے والے بچوں کی شرح کے لحاظ سے جنوبی ہند کی اس ریاست کو جہاں بی جے پی زیراقتدار ہے 30 میں سے 23 واں درجہ حاصل ہے ۔ ایسے بچے جن کا جسمانی وزن ان کی عمر کے حساب سے بہت کم ہے اس معاملہ میں کرناٹک کو 30 میں سے 25 واں مقام دیا گیا ہے ۔ ایسے گھرانوں جس کا کوئی بھی رکن انشورنس کا حامل ہو اس معاملہ میں کرناٹک کو 30 میں سے 20 واں رینک حاصل ہے ۔ ایسی آبادی جو بہتر حفظان صحت کی سہولتیں استعمال کرتی ہے اس سلسلہ میں دیکھیں تو کرناٹک 30 میں سے 17 ویں مقام کا حامل ہے ۔ مجموعی HDI کے لحاظ سے کرناٹک کو 30 میں سے 14 واںدرجہ ملا ہے ۔ کرناٹک کی حالت زار کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا ، 2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے بعد چار مختصر مدتی حکومتیں آئیں ۔ بالترتیب 6دنوں ، ایک سال 64 یوم ، 2 سال دو دن چلتی رہی اور موجودہ حکومت جو 28 جولائی 2021 میں چل رہی ہے ( جس کی معیاد 10مئی 2023 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ختم ہوگی ) ریاست میں اس سیاسی عدم استحکام کے بدترین ڈرامہ کی ویلن بنا کسی شک و شبہ کے کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی ہے ۔
یاد رکھئے مختصر مدتی اور غیر مستحکم حکومتوں کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے بلکہ ان حکومت سے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس کی پیش قیاسی کردی گئی تھی عوام کے خیال میں موجودہ بی جے پی حکومت کرناٹک کی تاریخ کی سب سے بدعنوان یا کرپٹ حکومت ہے اور 40 فیصد سرکار ( 40 فیصد کمیشن کمانے والی حکومت ) کہلانے کی پوری طرح مستحق ہے یہ جملہ دراصل کرناٹک کنٹراکٹرس اسوسی ایشن کے اس مکتوب سے حاصل کیا گیا جس میں کرناٹک کی بی جے پی حکومت پر ہر فیصلہ کیلئے 40 فیصد کمیشن طلب اور قبول کرنے کا الزام عائد کیا گیا اس کے علاوہ بی جے پی حکومت نے عوام سے ایسے بے شمار وعدے کئے جنہیں پورا نہیں کیا گیا ۔ مثال کے طور پر بی جے پی حکومت نے زرعی ، تعلیمی ، صحت عامہ ، روزگار ، بنیادی سہولتوں اور اقتصادی شعبوں سے متعلق عوام سے بے شمار وعدے کئے لیکن ان وعدوں کو وفا نہیں کیا گیا اس کے ساتھ پچھلے چار برسوں میں ریاست کے جو سماجی و سیاسی حالات رہے انتہائی ابتر رہے اور حجاب ، حلال ، لوجہاد ، تبدیلی مذہب قانون بل اور یہاں تک کہ ٹیپوسلطان کی مخالفت کے نام پر تنازعات پیدا کئے گئے ۔ فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کیا گیا ، واضح رہے کہ ٹیپو سلطان نے 1782 اور 1791 کے درمیان حکومت کی تھی ۔ ان انتخابات میں ہر کسی کو یہی توقع رہی ہوگی کہ عوام کو درپیش مسائل کو موضوع بحث بنایا جائے گا اور ہر سروے و اوپنین پول میں عوام یا رائے دہندوں نے ان مسائل کے حوالے دیئے مثال کے طور پر عوام نے جن مسائل کی نشاندہی کی ان میں بیرروزگاری ، مہنگائی ، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور رشوت شامل ہیں ۔ عوام نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ریاست میں 256000 سرکاری عہدے مخلوعہ ہیں جن پر تقررات یا بھرتیاں نہیں کی جارہی ہیں ۔ اسی طرح سال 2020 سے 1258 کمپنیاں بند ہوچکی ہیں ، پبلک سیکٹر کی 13 یونٹس غیرکارکرد ہوگئی ہیں ۔ حکومت پر اسکامس کے بے شمار الزامات ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہیکہ بی جے پی کی ریاستیں حکومت اور اس کی قیادت کمیشن سے لیکر بیروزگاری ، مہنگائی ، بنیادی سہولتوں کے فقدان ، کمپنیوں کے بند ہوجانے یا ان کے غیرکارکرد ہونے کے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیتی ۔ جب کبھی مبینہ کرپٹ ( بدعنوان ) چیف منسٹر کا حوالہ دیا جاتا ہے اس الزام کو بی جے پی قائدین ایسے پیش کرتے ہیں جیسے ساری لنگایت برادری پر بدعنوان کا الزام عائد کیا گیا ہو ۔ کرناٹک کے موجودہ چیف منسٹر بھی لنگایت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں حیرت کی بات یہ ہیکہ مرکزی وزیر داخلہ نے رائے دہندوں کو یہ انتباہ دیا ہیکہ اگر کانگریس اقتدار میں آئے گی تو کرناٹک میں فسادات ہوں گے ، بی جے پی مذہب کے نام پر جو کچھ کررہی ہے اس کا اندازہ اس تلخ حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے 224 رکنی کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا ۔ بی جے پی قائدین برسرعام یہ کہنے لگے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے برعکس جب کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد بجرنگ دل اور پاپلرفرنٹ آف انڈیا جیسی نفرت پھیلانے والی تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے گی تب بی جے پی قائدین نے عوام کے سامنے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہنومان ( بجرنگ بالی ) کی پوجا کرنے والوں کو جیل میں ڈھکیل دیا جائے گا ۔ کانگریس کے بیان کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے وزیراعظم ہیں جنہوں نے جادوئی طور پر بجرنگ دل کو بجرنگ بالی کے بھکتوں میں تبدیل کردیا ۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں عوام کو 5 طمانیت دی ہیں جس سے سالانہ سرکاری خزانہ پر 30000 تا 35 ہزار کروڑ روپئے کا اضافی بوجھ عائد ہوگا ۔ بی جے پی نے تین ہندو تہواروں کے موقع پر تین گیس سلنڈرس مفت دینے کا اعلان کیا اس کے علاوہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے ہر خاندان کو یومیہ آدھا لیٹر مفت دودھ اورکھانا میل فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں حالانکہ وزیراعظم نے ریوڑی کلچر کی مخالفت میں بیان دیا تھا ۔ بی جے پی کے دو سرفہرست قائدین پی ایم اور ایچ ایم ریاستی حکومت کے ریکارڈ کی مدافعت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ دونوں حقیقی عوامی مسائل پر خاموش ہیں اور خاموشی ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کرناٹک میں مہابھارت کی تاریخ دہرائی جائے گی ؟