خانگی مسلمہ اسکولوں کا معلنہ فیس اسٹرکچر عمل آوری کا متقاضی

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ

تعلیم کا لفظ علم سے نکلا ہے۔ جس کے لغوی معنی واقفیت حاصل کرنا اور جاننا کے ہیں لہذا تعلیم ایسے عمل کا نام ہے جس سے طلباء کو کچھ ایسی معلومات فراہم کی جائے جو وہ پہلے نہیں جانتے ہو۔ تعلیم کا عمل ایک ایسی کوشش ہے جس کے ذریعہ انسان کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے گویا تعلیم قدم بہ قدم بڑھنے کانام ہے کسی بھی قوم یا معاشرہ کو بنانے یا سنوارنے میں تعلیم کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔ معاشرہ کے فرد کی ذہنی ، اخلاقی ، تربیت اور سیرت کردار میں تعلیم اہم رول ادا کرتی ہے ۔ علم ایک ایسی روشنی ہے جس کا کام قلب و ذہن کی تاریکیوں میں اُجالا لانا ہے ایسی روشنی سے انسان ایک طرف اپنی شناخت بناتا ہے تو دوسری طرف اشرف المخلوقات کی حیثیت سے زندگی گذارنے کے انداز و اطوار بھی سیکھتا ہے۔ تعلیم کا اہم مقصد طلباء کی فطری صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہیکہ طلباء کی سیرت وکردار پر سب سے زیادہ اثر استاد کے رویہ کا ہوتا ہے۔ طلباء اپنے استاد کا لباس ، انداز گفتگو ، اعمال اور مجموعی کردار کا بخوبی جائزہ لیتے رہتے ہیں اور اس ادارہ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں معلم کو اپنے پیشے کا شعور ہونا چاہئے اور اُسے اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نے اس نے ایک ایسا پیشہ عطا کیا ہے جو اس نے پیغمبروں اور اپنے محبوب بندوں کیلئے پسند فرمایا ہے ۔ موجودہ نظام تعلیم میں طلباء کا اصل مقصد حصول روزگار ہے اور یہ نظام تعلیم افراد کی مادہ پرست بنانے میں مصروف ہیں یہی وجہ ہیکہ بعض والدین اپنی اولاد کو ڈاکٹر ، انجینئر دیکھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور اس خواہش میں انسانیت کی خدمت یا وطن کی خدمت کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ وسائل کے حصول کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے ایسی نظام تعلیم میں تعلیم برائے حصول روزگار ایک روایت بن گئی ہے اب تک لاکھوں ڈاکٹرس ، انجینئرس بن چکے لیکن اکثر ڈاکٹرس عوام کو لوٹنے اور اپنی جیبیں بھرنے اور بڑے بڑے عالیشان محلوں کے مالک بننے کے سواء کچھ نہیں کرسکے ۔
حکومت تلنگانہ کی جانب سے جاری کردہ فیس اسٹرکیچر Acadamic Year 2014-15 Fee Structure As Declared By The Private Recognised Schools (Un-Aided Schools of Hyd District) فیس اسٹرکیچر کے ذریعہ خانگی اسکولوں کیلئے فیس کا تعین کیا گیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ اس پر عمل نہیں ہورہا ہے اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشنل آفیسر حیدرآباد ، ڈسٹرکٹ کی جانب سے جاری کردہ میمو Memo No: Spl-1/DEO/20 15-1,dated:24/06/2015 میں خانگی اسکولوں میں اسکول مینجمنٹ کو Note Books ، Stationary ، Uniform وغیرہ فروخت پر پابندی لگائی ہے اور طلباء کے متعلقین کو نوٹ بکس ، اسٹیشنری اور یونیفارم وغیرہ انہیں کے اسکول سے خریدنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہیکہ ایسے قوانین یا Acts صرف کتابی زینت بن جاتے ہیں اور حقیقت میں انہیں کھلے عام نظرانداز کردیا جاتا ہے عام طور پر دیکھا گیا ہیکہ بعض خانگی اسکولس میں اسکول انتظامیہ طلباء کے والدین سے ہزاروں روپئے بطور ڈونیشن اور ہزاروں روپئے فیس وصول کررہا ہے اور اسکول انتظامیہ طلباء کے متعلقین پردباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ بچوں کے یونیفارم ، نوٹ بکس ، اسٹیشنری اور دیگر ضروری اشیاء صرف انہیں کے اسکولس سے خریدیں جیسا کہ کارپوریٹس ہاسپٹل کا طرز عمل ہیکہ وہ صرف مریضوں کو ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں جو صرف وہیں دستیاب ہوتی ہے اور جن کی بچت کی ادائیگی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی ہے لیکن جان کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان ادویات کو خریدنا پڑتا ہے اسی طرح سے خانگی اسکولس کے مینجمنٹ بھی طلباء کے والدین کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کتابیں یونیفارم ، اسٹیشنری وغیرہ صرف ان ہی کے پاس سے خریدیں اور ان کی قیمت من مانی وصول کی جاتی ہے لیکن Corporate Hospitals کے مریضوں کی طرح والدین بھی اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے وہاں سے کتابیں ، ڈریس ، اسٹیشنری وغیرہ خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
علاوہ ازیں بڑے بڑے خانگی اسکولس جو کارپوریٹ ہاسپٹلس کی طرح ہے وہاں طلباء سے ہزاروں روپئے حاصل کئے جاتے ہیں لیکن ٹیچرس کو برائے نام تنخواہ دی جاتی ہے اتنی کم تنخواہ میں موجودہ مہنگائی میں گذر بسر تقریباً ناممکن ہوجاتی ہے اور ٹیچرس کو 5 تا 6 گھنٹے کھڑے رہ کر پڑھانا پڑتا ہے اور انہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں رہتی ہے عام طور پر ایسے ٹیچرس کیلئے ایک قیامت سے کم نہیں ہوتا ہے ۔ تلنگانہ حکومت کو چاہئے 2015 میں جاری کردہ فیس اسٹرکیچر میمو نمبر Mome No:SPL-1/DEO/2015-1, Dated 24/06/2015 کے مطابق ایسے اسکولوں پر سختی سے پابندی عائد کرے جہاں طلباء کے والدین کو انہیں کے اسکولس سے نوٹ بُکس ، یونیفارم ، اسٹیشنری اور دیگر ضروری اشیاء خریدنے پر مجبور نہ کرے ان حالات سے متعلقہ عہدیداروں یقینی طور پر واقف ہونگے سوال یہ ہیکہ کیا پیسوں کے ذریعہ ان کا مُنہ بند کردیا جاتا ہے ؟ کیونکہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی کارروائی نہیں کرتے ہیں ایسے بعض خانگی اسکولوں اور Corporate Hospitals پر شکنجہ کسا جائے جو قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے من مانی کررہے ہیں اور موسم گرما میں اسکولس و کالجس میں کلاسس جاری رہتی ہے ۔ طلباء اور ان کے متعلقین سے جبری فیس وصول کرنا اور مجبور ٹیچرس پر ظلم کرنا اور ان کا خون چوسنا ایک کھلی درندگی اور بربریت ہے اس سلسلے میں بعض اسکول انتظامیہ کی جانب سے یونیفارم ، نوٹ بکس ، اسٹیشنری وغیرہ خریدنے پر جبری دباؤ ڈالا جائیں تو آپ ڈسٹرکٹ کلکٹر سے نمائندگی اور راست تحریری شکایت کرسکتے ہیں ۔ مزید تفصیلات کیلئے اس نمبر 9959672740 ربط پیدا کیا جاسکتا ہے ۔