سنی سنائی باتوں پر فوراً یقین مت کیا کریں
جھوٹ ہمیشہ سچ سے زیادہ جلدی پھیلتا ہے
خطہ میں پائیدار امن ضروری
آیا پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔ آج یہ سوال مزید طاقتور ہوگیا ہے کیوں کہ ہندوستان کو ایک طرف چین سے خطرہ ہے تو دوسری طرف پاکستان کی سرحدی دراندازی سرگرمیوں میں اضافہ ہے۔ چین کے ساتھ کشیدگی کے درمیان اگر ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ انتقامی کارروائی کو جاری رکھا تو یہ ایک تشویشناک بات ہے۔ دونوں جانب جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے ہی حالات کشیدہ ہوتے ہیں۔ ہندوستانی فوج نے پاکستان کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے جواب میں فائرنگ کرکے جمعہ کے دن پاکستان کے 8 سپاہیوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ ان میں پاکستانی فوج کے خصوصی سرویس گروپ کے 3 کمانڈوز بھی شامل تھے۔ ہندوستانی فوج نے سرحدی چوکسی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ پاکستان کے تعلق سے یہی کہا جاتا ہے کہ سرحد پر دراندازی کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ موسم سرما میں سرحد پر برفباری کا فائدہ اُٹھاکر پاکستانی درانداز کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کارروائی میں ہر دو جانب جانی نقصان ہوتے آرہے ہیں۔ ہندوستانی فوج کے دو سپاہی اُری سیکٹر میں ہلاک ہوئے اور کروز سیکٹر میں ایک سپاہی کی نعش دستیاب ہوئی۔ دونوں جانب کی افواج کو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہندوستانی فوج کی یہ شکایت ہے کہ پاکستان کی جانب سے ہی ہر بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ ہندوستان کو اپنی سرحدوں کے دونوں جانب خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ چین سے متصل سرحد لداخ میں اور پاکستان سے متصل سرحد پر دراندازی کے واقعات تشویشناک بات ہے۔ ہندوستانی فوج ہر دو مورچوں پر ڈٹی ہوئی ہے۔ چین کے جارحانہ تیور کے باوجود دونوں ملکوں چین ۔ ہندوستان نے غلط فہمیاں پیدا کرنے سے گریز کرنے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے سے اتفاق کیا ہے تو پاکستان کے تعلق سے بھی ہندوستان کی شکایت کو دور کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کی حکومت پر الزام ہے کہ وہ سرحدی دراندازی کی حمایت کرتے ہوئے دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ اس طرح کے الزامات دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضاء قائم کرنے میں معاون نہیں ہوں گے۔ جس کی جارحیت کے باوجود ہندوستان کی خاموشی یا نرم موقف اور پاکستان کی سرحد پر کشیدگی پر فوری کارروائی صورتحال کو مزید خراب کررہی ہے۔ چین کے ساتھ کشیدگی کے تعلق سے دیگر ممالک کو بھی تشویش ہے خاص کو روس نے خبردار کیاکہ ہند ۔ چین کشیدگی میں اضافہ سے جغرافیائی نکتہ نظر سے یہ کشیدگی کئی ملکوں کے لئے خطرناک ہوگی۔ ایشیائی ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔ جس طرح چین کے ساتھ کشیدگی سے ماباقی دنیا کے ملکوں کو تشویش لاحق ہے تو پاکستان کے معاملہ میں بھی یہی رائے ہونی چاہئے۔ سرحدی لڑائیاں، حملے، فائرنگ کے واقعات سے کوئی بھی ملک پرامن طریقہ سے ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔ جنوبی ایشیائی ملکوں کو اس خطے میں ایک مکمل امن برقرار رکھنے کے لئے آپسی سرحدی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ چین کے معاملہ میں مودی حکومت نے نرمی اختیار کرلی ہے تو پاکستان کے تعلق سے اس حکومت کا رویہ ہی نازک صورتحال کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہندوستان کو اپنی ہر سرحد کی حفاظت کرنے کا کامل اختیار ہے۔ اگر چین جارحیت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کا جواب دینے کے لئے ہندوستانی فوج مورچہ بند ہے۔ اس طرح پاکستان کی طرف سے بھی سرحدی دراندازی ہوتی ہے تو اس دراندازی کی کوشش کو ناکام بناتے ہوئے ہندوستانی فوج کو سخت کارروائی کرنی پڑتی ہے تو یہ حالات کا تقاضہ ہی کہلائے گی۔ ہندوستان کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے ایسے میں ہمسایہ ملکوں سے کشیدگی کو ہوا دینے والے واقعات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ چین پر پڑوسیوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا خبط طاری ہے۔ اسے اپنا یہ خبط ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان کو بھی سرحدی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے گریز کرتے ہوئے ایک پرامن ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات میں بہتری سے ہی خطہ میں پائیدار امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ اگر اس خطہ کا ہر ملک ایک دوسرے کے خلاف کھڑا ہونے کی حماقت کرے تو پھر پائیدار امن کی اُمیدوں کو شدید دھکا پہونچتا رہے گا۔
ہندوستان کو کساد بازاری کا سامنا
ہندوستان کی معاشی صورتحال پر رپورٹ دینے والے اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس سال ہندوستان کو کساد بازاری کا سامنا ہوگا۔ کورونا وائرس کی وباء کے دوران ہندوستان معیشت کو شدید دھکہ لگا ہے۔ آر بی آئی نے ایک سے زائد مرتبہ معاشی سنگینیوں کی جانب سے اشارہ دیا ہے۔ مالیاتی سال 2020-21 ء کے پہلے حصہ میں ہی ہندوستان کو پہلی مرتبہ ٹیکنیکلی کساد بازاری کا شکار ہونا پڑے گا۔ یہ رپورٹ تشویشناک ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے ہندوستان کی جی ڈی پی میں جولائی سپٹمبر کے دوران 8.6 فیصد تک کمی کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ اس تناظر میں ہندوستان کو معاشی شعبہ میں اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹکنیکلی کساد بازاری کا شکار ہونا پڑے گا۔ یہ رپورٹ تشویشناک ہے۔ معاشی ماہرین نے معاشی ابتری کے لئے مودی حکومت کی پالیسیوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ برآمداتی اور درآمداتی پالیسیوں کی وجہ سے اربوں، کھربوں روپئے کے نقصانات ہورہے ہیں۔ گزشتہ ماہ اکٹوبر میں بھی ہندوستانی برآمدات 5.12 فیصد کم ہوئے جس سے 24 ارب 89 کروڑ ڈالر کی ہی برآمدات ہوئی ہیں جبکہ سال 2019 ء میں یہ برآمدات 26 ارب 23 کروڑ ڈالر کے ہوئے تھے۔ بہرحال ایک طرف ماہرین بتارہے ہیں کہ معاشی کساد بازاری کا سامنا ہے تو دوسری طرف وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے جی ڈی پی میں بہتری کا دعویٰ کیا ہے۔ مودی حکومت اور ان کی وزارت فینانس کی ٹیم کو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے گریز کرنا چاہئے کیوں کہ عالمی سطح پر جو تبدیلیاں آرہی ہیں اسے دیکھتے ہوئے بھی ہندوستان کی حکومت نے خاص تیاری نہیں کی تو عوام کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔
