ایمگریشن کی تعداد میں کمی‘غیر مقیم ہندوستانی کی واپسی پر کے بعد بکھیری ہوئی زندگی کو جوڑنے کی جدوجہد
ترویننتھاپورم۔فضاء میں بے چینی اور اضطراب آمیز خاموشی تھی اور کیرالا کے ملبار علاقے میں ایک چھوٹی ٹاؤن کوٹاکال میں ایک قدیم ہوٹل کا کانفرنس ہال کچھ گھنٹوں میں ہی بھر گیا۔جیسے ہی 2بجے کا وقت قریب آگیا ‘ تین سو لوگ یہاں پرجمع ہوگئے جس میں زیادہ تر مرد تھے ۔
عام لباس زیب تن کئے ایک چھوٹے ڈائس کے قریب حمزہ انچومکولی کھڑے تھے جنھوں نے کہاکہ ’’ معاف کرنا بھائی لوگوں ‘ ہمیں پچا س سے سو لوگوں کی توقع تھی‘‘۔ حمزہ ایک حوصلہ افزائی کرنے والے او رپیشہ سے کاروباری ہیں‘ جو مفت کاروباری چلانے کے بنیادی حکومت عملی پر سمینار منعقد کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ ’’ خلیج سے واپس آنے کے بعد بہت سارے ملیالی کیرالا میں صنعت میں ناکام ہورہے ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ کوئی بزنس شروع کرنے سے قبل اس کی بنیادی اصول سمجھ لیں‘‘۔
وہ اس خدشہ پر بول رہے تھے جو کافی عرصہ سے کیرالا میں خوف کی وجہہ بنا ہوا ہے۔ غیرمقیم ہندوستانی گلف ملیالی کی واپسی اور انتہائی سنگین مستقبل کاراستہ ‘‘۔ تیل کی دولت سے مالا مال 1970کے دہے میں کافی سدھار کی حالت میں تھا۔
خلیج میں خراب حالات کے پیش کیرالا میں گھر واپس آنے والے ملیالی لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جوبے روزگاری میں اضافہ اور غربت سے بچنے کے لئے بے چین تھے وہ اب گھر لوٹ رہے ہیں۔
جی سی سی( گلف کواپریشن کونسل ) ممالک نے سستی لیبر کی شروعات تیل کی دولت کو انڈسٹریز او ر انفرسٹچکر پر لگانے کے لئے شروعات کی ۔سال2013تک کیرالا کے ایک اندازہ کے مطابق 2.4ایمگرینٹ تھے اور اس میں سے 85فیصد خلیج میں کام کررہے ہیں۔
جبکہ امریکہ میں تین فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ سال2014میں کیرالا کے ترسیلات 36.3فیصد تھے گھریلو مصنوعات پر تھے اور پچھلے سال یہ 85ہزار کروڑ پر ریاست میں منتقل ہوئے ۔
مگر پھر کیرالا نژاد سنٹر فار ڈیولپمنٹ اسٹیڈیز ( سی ڈی ایس) کی پچھلی سال شائع رپورٹ نے اسبات کی توثیق کی ہے کہ کیرالا سے ایمگریشن میں بھاری گرواٹ ائی ہے۔ سال2013سے 18کے دوران تین لاکھ ایمگرینٹس کی کمی دیکھی گئی ہے جو 2013تک ایک دہائی ہے۔
سال2018میں شائع مطالعہ کے مطابق ایمگریشن کتی تعداد میں میں2013کے مقابلے میں 11.6فیصد کی منفی اثر دیکھنے کو ملی۔حمزہ کی کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں42سالہ راج کمار جسکا تعلق جنوبی کیرالا کے پونالور سے ہے بھی شامل تھے ۔
وہ اپنے آبائی مقام سے ٹرین پکڑکر تین سو کیلومیٹر کی مسافت طئے کرنے کے بعد یہاں پہنچے تھے تاکہ سمینار میں شرکت کرسکیں۔ بارہویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2009میں راج کمار مسقط کی راجدھانی عمان چلے گئے تھے ۔
شروعات میں انہوں نے کمپیوٹر سرویس سنٹر میں ملازمت کی جہاں پر انہیں250عمانی ریال ( تقریبا46ہزار روہئے) تنخواہ ملتی تھی ۔انہو ں نے کہاکہ ’’ زندگی بہت مشکل تھی‘ مگر اچھی چیز یہ رہی کہ میں گھر پیسے بھیجنے کے قابل تھا۔
میں اپنے خرچ کے لئے پچاس عمانی ریالی رکھ کر باقی کے پیسے گھر بھیج دیتا تھا‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ چھ ماہ قبل وہ گھر واپس لوٹے تھے ۔انہو ں نے کہاکہ بزنس ائیڈیا کی کاپی کرنا ضروری نہیں ہے۔ بہت سارے کاروبار ہیں جو کئے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ’’ اگر کوئی شخص کوزی مانتھی میں ریسٹورنٹ شروع کرتا ہے ‘ دیگر پانچ لوگ بھی اسی علاقے میں ٹھیک اسی طرح کا روبار شروع کردیتے ہیں‘‘۔انہو ں نے یہ بات مشہور یمنی چکن رائس ڈش کے حوالے سے دیا۔
انہو ں نے کہاکہ ’’ مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے کہیں زیادہ ہونہار ہو۔ آپ میں سے کئی ایسے ہیں جس کے پاس زیادہ ترقی کا ہنر ہے‘‘۔ تالیوں کے ساتھ سمینار اختتام پذیر ہوا ۔