راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ اپنی منفی چھاپ کو مثبت بنانے کی کوشش کے ساتھ یونیورسٹی نصاب میں تعریف پر مبنی مواد کو شامل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے ۔ مہاراشٹرا کی یونیورسٹی کے بی اے سال دوم کے تاریخ کے نصاب میں آر ایس ایس کی تعریف میں لکھے گئے مضمون کو شامل کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ آر ایس ایس نے قومی تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ تاریخ کے طلباء کو گمراہ کرنے والے اس مضمون کی نصاب میں شمولیت کے خلاف کسی بھی گوشے سے کوئی خاص اعتراض یا احتجاج نہیں کیا گیا ۔ اسکولی نصاب میں بھی ہندوتوا نظریہ کو فروغ دینے والے مضامین شامل کرتے ہوئے ملک کی تاریخ کو الٹ کر رکھ دیا جائے گا ۔ حکمراں پارٹی بی جے پی بھی آر ایس ایس کے بغیر خود کو صفر محسوس کرتی ہے ۔ عام انتخابات میں اس کی کامیابی کا دار و مدار آر ایس ایس کارکنوں کی گھر گھر انتخابی مہم پر ہی تھا ۔ اس لیے بی جے پی نے اپنی تنظیم میں آر ایس ایس کے 12 جوشیلے پرچارکوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ملک کی تاریخ کو نیا موڑ دینے والے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ یہ تمام حرکتیں ہندوستان کے سیکولر عوام کی نظروں کے سامنے دن کے اُجالے میں پوری ڈھٹائی سے ہورہی ہیں ۔ لیکن اس کا سخت نوٹ لینے اس پر اعتراف کرنے اور مخالفت میں آواز بلند کرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ آر ایس ایس کے خلاف محاذ میں کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ سیکولر ہندوستانیوں کو بڑے گروپ بناکر ملک کی جمہوری ، دستوری اور سماجی تانے بانے کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی مضبوط جدوجہد کی جائے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل یہی ہے کہ ہندوستان کو ہندو راشٹریہ میں تبدیل کردیا جائے ۔
اس کے لیے برسوں سے خفیہ کام ہورہے تھے لیکن گذشتہ پانچ سال سے یہ کام سرکاری سرپرستی میں کھلے طور پر انجام دئیے جارہے ہیں ۔ آر ایس ایس کو پہلے سے زیادہ قوت حاصل ہوئی ہے ۔ آر ایس ایس کی الگ الگ تنظیمی ذمہ داریاں ہوتی ہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے پرچارکوں کے کام کرنے کے میدان بھی آر ایس ایس کی طرف سے ہی طئے کئے جاتے ہیں ۔ پہلے ہی سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اگر آر ایس ایس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ بی جے پی کے لیے اپنے خاص پرچارکوں کی خدمات حوالے کرے تو اس کا ردعمل مثبت ہوتا ہے ۔ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ہر سال 3 اہم اجلاس منعقد کرتی ہے جس میں خاص حکمت عملی پر توجہ دی جاتی ہے ۔ آج ملک کے عوام پر حکومت کرنے والے ذہن بھی اسی میدان سے آتے ہیں ۔ آج کی حکومت میں ایک سیاسی پارٹی کی نظریاتی پرورش کرنے میں آر ایس ایس نے جو رول ادا کیا تھا اس کا راست فائدہ اسے ہورہا ہے ۔ ہندوستان کی دائیں بازو کی سیاست کو فروغ دینے والے آر ایس ایس کے قائدین میں 11 وہ قائدین قابل ذکر ہیں جن کی وجہ سے بی جے پی کو آج مرکز میں قطعی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار پر دوبارہ قبضہ ملا ہے ۔ 11 رکنی آر ایس ایس میں 10 مرد قائدین اور ایک خاتون نے مل کر اس تنظیم کو جو قوت عطا کی ہے وہ سماج کو منتشر کرنے کے نظریہ کی حامی ہے ۔ ان 11 سیوکوں میں کے بی ہیڈگیوار ، وی ڈی ساولکر ، ایم ایس گاولکر ، ایس پی مکرجی ، دین دیال اپادھیائے ، بالا صاحب دیورس ، وجئے راجے سندھیا ، اٹل بہاری واجپائی ، لال کرشن اڈوانی ، اشوک سنگھل اور بال ٹھاکرے قابل ذکر ہیں ۔ انہی کی بدولت ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاست کو فروغ ملا ہے ۔ ملک کی قدیم ترین پارٹی کانگریس نے آر ایس ایس کا راستہ کاٹنے کی کبھی جرات نہیں کی جس کے نتیجہ میں آج اسے بدترین سیاسی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔ آج بھی اپنی تمام ناکامیوں کے باوجود کانگریس نے آر ایس ایس کے بڑھتے قدم روکنے کی ہمت کرنے سے گریز کیا ہے ۔ سیکولر چھاپ کے ساتھ کانگریس نے نقلی ہندوتوا کا مظاہرہ کیا تو وہ دونوں میدان سیکولر اور ہندوتوا میں بری طرح چت ہوچکی ہے لیکن ہر ناکامی کے بعد مقابلہ کا عزم کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ دائیں بازو کی سیاست کا سامنا کرنا ہوتا ہے ۔ تاہم کانگریس قیادت نے میدان چھوڑ کر آر ایس ایس کا کام آسان کردیا ہے ۔۔