دستوری ترمیم : تقریباً سبھی ہندوستانی غریب ہیں؟

   

پی چدمبرم
اُلٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ ظاہر طور پر یہی مسٹر نریندر مودی کی حکومت کا تاثر ہے۔ اس نتیجے کی تائید میں ثبوت ہر گزرتے دن بڑھتا جارہا ہے۔ تازہ ترین ثبوت وہ عجلت ہے جس طرح دستوری (124 ویں ترمیم) بل کا مسودہ بنایا گیا (7 جنوری) اور پارلیمنٹ نے منظور کرلیا (9 جنوری)۔ یاد کیجئے کہ دستورِ ہند کو بنانے کیلئے کتنا عرصہ درکار ہوا تھا۔ یہ بھی یاد کریں کہ 1951ء میں دستور کی پہلی ترمیم کا مسودہ بنانے اور اسے منظور کرنے کتنا عرصہ لگا تھا۔ پہلی ترمیم ہی ہے جس نے ’شہریوں کے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات یا درج فہرست طبقات اور درج فہرست قبائل‘ کیلئے ’خصوصی گنجائش‘ کا نظریہ متعارف کیا۔ فقرہ ’خصوصی گنجائش‘ کو عام فہم زبان میں ’ریزرویشن‘ سمجھا جاتا ہے۔
ہیبت زدہ: دستور کی 124 ویں ترمیم کے خلاف تنقید یہی ہے کہ اسے 48 گھنٹوں میں نمٹایا گیا حالانکہ کوئی پارلیمانی کمیٹی نے تنقیح کی اور نا ہی عوامی مباحث ہوئے۔ دوسری طرف لوک سبھا اور ریاستی مقننہ جات میں خواتین کیلئے ایک تہائی نشستیں محفوظ کرنے کیلئے دستوری ترمیم بل 2008ء سے لٹکا ہوا ہے۔ 124 ویں ترمیم کی خوبی سے قطع نظر ، یہ یکایک اضطراب و ہیبت کی علامت ہے جس نے بی جے پی اور حکومت کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہیبت کے زیراثر دیگر اقدامات کی تیاری ہورہی ہے؛ اُن میں کسانوں کو نقدی کی منتقلی ہے جس کا میں نے میرے کالم مورخہ 6 جنوری 2019ء میں تذکرہ کیا تھا۔

اُصول پر اتفاق: اب، اس بل کے محاسن کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس بل سے منسلک مقاصد و دلائل کا بیان بتاتا ہے کہ ’شہریوں میں سے معاشی طور پر کمزورتر طبقات کے معاشی طور پر زیادہ مراعات والے افراد کے ساتھ مسابقت کی اپنی اقتصادی ناقابلیت کے سبب وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سرکاری روزگار میں شریک ہونے سے زیادہ تر محروم رہے ہیں‘۔ کسی بھی سیاسی پارٹی نے اس بل کے پس پردہ اُصول کی مخالفت نہیں کی۔ (کانگریس نے 2014ء کے لوک سبھا الیکشن کے اپنے منشور میں معاشی طور پر کمزورتر طبقات کیلئے ریزرویشن کا وعدہ کیا تھا)۔ لہٰذا، اس بل کی وسیع تر مخالفت اُصول پر نہیں بلکہ دیگر وجوہات کی بناء ہے جو بھاری اور مناسب ہیں، بشمول :
.1 اگر معاشی طور پر کمزورتر طبقات کیلئے ریزرویشن گزشتہ 4 سال اور 7 ماہ کے دوران ترجیح نہ رہا (جبکہ تین طلاق بل رہا)، تو کیوں یہ لوک سبھا الیکشن کے اعلامیہ سے محض 60 یوم قبل اعلیٰ ترجیح بن گیا؟
.2 آرٹیکل 15 کے مجوزہ فقرے (6)(a) اور (b) وہی آرٹیکل کے موجودہ فقروں (4) اور (5) کی ہوبہو نقل ہے … جبکہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ آرٹیکل 15(5) میں درکار ہے کہ خصوصی گنجائشیں (یعنی ریزرویشن) قانون کے ذریعے بنائی جائیں، لیکن نئے فقرہ نے ’قانون کے ذریعہ‘ کے الفاظ حذف کردیئے اور اس طرح حکومت کو قابل بنائے گا کہ عاملانہ احکام کے ذریعے اسکولوں اور کالجوں میں ریزرویشن فراہم کیا جاسکے۔
.3 آرٹیکل 16 کا مجوزہ فقرہ (5) بھی وہی آرٹیکل کے موجودہ فقرہ (4) کو نقل کرکے استعمال کرلیا گیا ہے … جس میں ایک اہم تبدیلی ہے۔ آرٹیکل 16(4) نے شہریوں میں کسی پسماندہ طبقہ کیلئے ہی ریزرویشن کی اجازت دی، جن کی سرویس میں معقول نمائندگی نہ ہو۔ نئے فقرہ نے نمایاں کئے گئے الفاظ کو حذف کردیئے ہیں۔

قانونی اور اخلاقی طور پر مشتبہ
.4 سپریم کورٹ کا معلنہ قانون یہی کہتا ہے کہ نوکریوں میں ریزرویشن کی اجازت نہیں تاوقتیکہ وہ طبقہ کی معقول نمائندگی نہ ہو؛ اور نا ہی معاشی پسماندگی کی واحد کسوٹی پر ریزرویشن کی اجازت ہے۔ بلاشبہ، وہ فیصلے موجودہ ترمیم سے قبل دستور کی مطابقت میں دیئے گئے تھے۔ حکومت کو ضرور مشورہ دیا گیا ہوگا کہ اگر دستور میں ترمیم کردی جائے تو وہ پہلے کے فیصلوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس بل کے اُصول کے حامیوں نے مطالبہ کیا جس کا کچھ اثر نہ ہوا، کہ حکومت کو حاصل شدہ قانونی رائے سے واقف کرایا جائے تاکہ خود کو مطمئن کرسکیں کہ وہ کسی غلط قانونی مہم جوئی میں فریق نہیں ہیں۔
.5 سب سے زیادہ ٹھوس تنقید اس کسوٹی سے متعلق ہے کہ غریب کا تعین کس طرح کریں۔ 8 جنوری 2019ء کو تمام اخبارات اور ٹی وی چیانلوں نے یکساں کسوٹی پیش کی (ظاہر ہے حکومت کی بریفنگ کی بنیاد پر)۔ 8 لاکھ روپئے کی مجموعی سالانہ آمدنی والی فیملی سے تعلق رکھنے والا فرد کی تشریح ’غریب‘ کے طور پر کی گئی ہے جس میں چند خارج ہیں۔ اپوزیشن نے اُس ڈیٹا کا مطالبہ کیا جس کی اساس پر حکومت 8 لاکھ روپئے کی حد پر پہنچی ہے، لیکن ایسا تو ہونے والا نہیں۔ عوامی گوشوں میں دستیاب مواد سے اشارہ ملتا ہے کہ آبادی (125 کروڑ) کا لگ بھگ 95 فیصد اہل ہوجائے گا … اور اُن میں سے بہت کم ’خارج‘ والے زمرہ کے تحت آتے ہیں۔ اگر اس ترمیم کے تحت تقریباً ہر کوئی ’غریب‘ ہے تو نقصان اٹھانے والے ’غریبوں میں غریب ترین‘ ہوں گے جن کیلئے اس ترمیم کا ارادہ کیا گیا! جب تک ’غریب‘ کی تشریح مہین فرق سے نہ کی جائے تاکہ اس میں معاشی سیڑھی کی نچلی سطح میں موجود صرف 20 فیصد آبادی شامل ہوگی، جبکہ نئی گنجائش قانونی اور اخلاقی دونوں طرح مشتبہ رہے گی۔
.6 بڑا سوالیہ نشان سربراہی والے پہلو سے متعلق ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں انفراسٹرکچر یا قابل ٹیچروں کی قلت پر توجہ دیئے بغیر حکومت کی جانب سے زیادہ نشستیں منظور کی جاسکتی ہیں۔ لیکن حکومت میں نوکریوں کے معاملے میں جائیدادیں کہاں ہیں؟ کیا حکومت کا ایسا ارادہ ہے کہ حکومت کو مرکزی، ریاستی، بلدی، پنچایت اور عوامی شعبے میں تمام سطحوں پر وسیع تر پھیلایا جائے۔ سنٹرل پبلک سیکٹر انٹرپرائزس میں ملازمین کی تعداد درحقیقت ختم مارچ 2014ء میں 1,690,741 سے گھٹ کر ختم مارچ 2017ء میں 1,523,586 ہوگئی ہے۔ اسے حکومت کا دھوکہ کہا جائے گا جب دستیاب گنجائش کے ایک اور حصہ کو محفوظ کیا جائے حالانکہ وہ گنجائش بدستور اتنی ہی ہے۔یہ بل ظاہر ہوتا ہے ریزرویشن کیلئے نہیں بلکہ خود کے تحفظ کیلئے ہے۔