دعوت و تبلیغ کا کٹھن اور صبر آزما دور

   

ہادی عالم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت و تبلیغ سے روکنے کے لئے مشرکین مکہ اور مخالفین اسلام نے اس قدر کوششیں کیں کہ اگر وہ کسی دوسرے باہمت کے ساتھ کی جاتیں تو وہ کبھی میدان چھوڑ چکا ہوتا۔ اسی لئے سورہ ابراہیم میں ہے: ’’اور انھوں نے اپنا مکر کیا اور ان کا مکر و تدبیر اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے، گو ان کا مکر ایسے غضب کا تھا کہ اس سے پہاڑ بھی ٹل جائیں‘‘۔( سورۂ ابراھیم ۔۴۷) 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام سے روکنے کے لئے دشمنوں نے جو سب سے پہلی تدبیر اختیار کی، وہ یہ تھی کہ آپﷺ کا سائے کی طرح تعاقب کیا جاتا۔ آپ جس شخص سے بھی گفتگو فرماتے، تعاقب کرنے والا آپ کی گفتگو میں مداخلت کرتا اور لوگوں سے کہتا کہ وہ آپ کی بات نہ سنیں، کیونکہ آپﷺ (معاذاللہ!) بے دین ہیں اور کبھی جادوگر قرار دیا جاتا۔ عام طورپر ابولہب یہ کام کرتا (ابوالجوزی: الوفا۔۲۱۵،۲۱۶) پھر ایسا بھی ہوتا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن مجید سناتے تو وہ اتنا شور و غل کرتے کہ آپﷺ کے لئے قرآن حکیم کی تلاوت کرنا مشکل ہو جاتا۔
آپ کا تعاقب کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنان اسلام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کے سامنے اور آپؐ کے پیچھے طنزیہ اور استہزائیہ جملوں کا نشانہ بناتے۔ اس شرارت کی ابتداء اسی دن ہو گئی تھی، جب آپﷺ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اعلان نبوت کیا تھا۔ اس موقع پر ابولہب نے کہا تھا: ’’تمام دن کے لئے آپؐ کی خرابی ہو، ہمیں اس لئے یہاں بلایا تھا‘‘۔ (ابن کثیر،۱۔۴۵۶)
اس کے علاوہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان بنوہاشم کو کھانے پر مدعو کیا تو اس موقع پر بھی ابولہب نے زیادتی کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذ باللہ!) جادوگر قرار دیا۔
طنزیہ فقرے بعض اوقات برا بھلا کہنے سے بھی زیادہ دل جلاتے اور انسان پر نفسیاتی طورپر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ حربہ جس شدت کے ساتھ آپﷺ کے خلاف آزمایا گیا، اس کی تاریخ عالم میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ آپﷺ جس طرف بھی تشریف لے جاتے، مشرکین طنزیہ فقروں سے آپ کو تکلیف پہنچاتے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’وہ جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے تمسخر کرنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کیا یہی ہیں جن کو خدا نے رسول بناکر بھیجا ہے‘‘ (سورۃ الفرقان۔ ۴۱) اللہ سبحانہ و تعالی نے آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے آیت قرآنی کو نازل فرمایا کہ ’’ہم آپ کے لئے تمسخر کرنے والوں کے مقابل میں کافی ہیں‘‘۔ (سورۃ الحجر۔۸۶)
ان سب طریقوں کے باوجود جب آپﷺ نے دعوت و تبلیغ کا کام موقوف نہ کیا تو مشرکین کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دعوت حق سے دست برداری کی صورت میں مکہ مکرمہ کی ریاست، عرب کے بڑے بڑے گھرانوں کی خوبصورت عورتوں سے شادی اور مال و دولت کے ذخیروں کی پیشکش کی، لیکن آپﷺ نے جواب میں حم السجدہ کی آیات تلاوت فرماکر اس کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔

(ابن ہشام: السیرہ النبویہ۱۔۶۱۳)
ایک دوسرے موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’واللہ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لاکر رکھ دیں، تب بھی میں تبلیغ سے نہ رکوں گا‘‘۔ اس پر بھی جب اسلام کی اشاعت جاری رہی تو دشمنان اسلام نے کمزور مسلمانوں پر ظلم و ستم اور جور و تعدی کی انتہا کردی۔ ان کمزور مسلمانوں کو مشرکین بھوکا پیاسا رکھتے، زد و کوب کرتے، ننگی پیٹھ پر کوڑے برساتے، الغرض ہر طرح انھیں اذیت دیتے۔ مشرکین مکہ کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے ان بیکس مسلمانوں میں حضرت خباب بن الارت، حضرت بلال حبشی، حضرت عمار بن یاسر اور ان کی والدہ حضرت سمیہ، حضرت صہیب رومی، حضرت ابوفکیہ، حضرت لبینہ اور زنیرہ وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں، جن کو روح فرسا طریقوں سے مارا پیٹا گیا۔ (السھیلی: الروض الانف۱۔۲۰۲)
ان حامیان اسلام میں سے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو ابوجہل نے نیزے کی انی مارکر شہید کردیا تھا۔ صحابہ کرام پر ڈھائے جانے والے یہ مظالم یقیناً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر اثر اور آپﷺ کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے تھے۔ آپ نے ان کمزور مسلمانوں کو ان کے آقاؤں کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے اپنے مالدار صحابہ کو ترغیب دی کہ انھیں خریدکر آزاد کریں، اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے سات غلاموں اور باندیوں کو خریدکر ان مظالم سے رہائی دلائی۔ (ابن حجر: الاصابہ۴۔۳۹۹)
اس پر بھی جب دعوت اسلام کی تحریک جاری رہی تو بالآخر (۷ نبوی کو) رؤسائے قریش کی باہمی مشاورت سے ایک معاہدہ ترتیب دیا گیا، جس کے مطابق قریش اور ان کے حلقوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان ہاشم اور ان کے ہم نواؤں سے معاشی و معاشرتی عدم تعاون کا فیصلہ کیا، یعنی ان پر معاشی پابندیاں عائد کیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ اسلام سے روکا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اس معاہدہ کی رو سے تین باتوں پر حلف لیا گیا: (۱) ان سے مناکحت نہ کی جائے (۲) ان کو کوئی چیز فروخت نہ کی جائے (۳) ان سے کوئی چیز خریدی نہ جائے (ابوالجوزی: الوفاء باحوال المصطفی۱۔۱۹۷) پھر اس کو باقاعدہ معاہدہ کی صورت میں لکھ کر بیت اللہ شریف پر لٹکا دیا گیا اور یہ سلسلہ تین سال (۷تا۱۰نبوی) جاری رہا۔ اس دوران بنوہاشم اور ان کے بچوں کی حالت نہایت نازک رہی، یہ لوگ سوکھے چمڑے کھاکر گزارہ کرتے رہے، صرف موسم حج میں ان کو باہر نکلنے کی اجازت ہوتی تھی، مگر دشمنوں کو ان پر رحم نہ آیا۔
(السھیلی: الروض الانف۱۔۲۳۱)

اندازہ کیجئے جب خاندان کے پھولوں سے نازک و کمسن بچے بھوک سے روتے اور بلکتے ہوں گے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤف و رحیم قلب مبارک پر کیا گزرتی ہوگی؟۔ مشرکین مکہ نے جب یہ تمام حربے ناکام ہوتے دیکھے تو انھوں نے ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے سروپا سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ ایک موقع پر یہ مطالبہ کیا کہ ہم اس صورت میں آپ کو نبی مان سکتے ہیں کہ آپ مکہ مکرمہ کے خشک پہاڑوں سے میٹھے پانی کے چشمے جاری کرکے دکھائیں یا اس سرزمین پر اپنے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغ لگائیں، جس کے درمیان نہریں چلتی ہوں یا آسمان کا کوئی ٹکڑا بطور عذاب ہم پر گرائیں یا اللہ تعالی یا فرشتوں کو ہمارے سامنے نمودار کرکے بتائیں یا اپنے لئے کوئی موتیوں کا محل بناکر پیش کریں یا پھر ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور ہم سب کے نام اللہ تعالی کی طرف سے لکھے ہوئے خطوط لاکر دکھائیں۔ ان سب کے جواب میں آپﷺ کو حکم دیا گیا کہ ’’آپ کہہ دیں کہ میں تو اللہ تعالی کا پیغام پہنچانے والا ہوں‘‘ (بنی اسرائیل) نیز قریش کا ایک وفد یثرب کے یہودیوں سے ملا اور ان سے کچھ مشکل علمی سوالات دریافت کئے۔ چنانچہ یہودیوں نے حسب ذیل تین سوالات بتائے: (۱) نفس اور روح کی حقیقت کیا ہے؟ (۲) اصحاب کہف کا قصہ کیا ہے ؟(۳) ذوالقرنین کون تھے؟۔ ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے جواب نہ دے سکیں گے، مگر ان سوالات کے جوابات علی الترتیب سورہ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں دے کر ان کو لاجواب کردیا۔
جب ان کی یہ ساری تدبیریں ناکام ہو گئیں تو انھوں نے سب سے آخر میں آپﷺ کے قتل کی ناپاک و گھناؤنی سازش تیار کی اور قریش کے تمام خاندانوں سے ایک ایک شخص کا انتخاب کیا اور یکبارگی آپﷺ پر حملہ کرنا طے کیا، مگر اللہ تعالی نے اس موقع پر بھی آپﷺ کی حفاظت فرمائی اور آپ گھر سے غار ثور، پھر وہاں سے مدینہ منورہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، اس طرح دعوت و تبلیغ کا پہلا دور ختم ہوا۔ (ماخوذ از سیرت خیرالانام)