دفعہ 35 اے

   

ہمارا مشرق و مغرب پہ دست و بالا ہے
ہم اپنی مُٹّھی میں سارا شمال رکھتے ہیں
دفعہ 35 اے
جموں و کشمیر میں مسائل کو زندہ رکھ کر اپنی سیاسی دکان چلانے والوں نے اب نیا کھیل شروع کیا ہے ۔ دہشت گردی کی بڑھتی کاررائیوں کا خوف پیدا کر کے یہاں پہلے سے زیادہ سیکوریٹی فورس کو تعینات کیا جارہا ہے جو کشمیریوں کی زندگیوں کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں کشمیر کو اٹوٹ حصہ مانا جاتا ہے تو پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ مسئلہ کشمیر تقسیم ہند کا وہ ایجنڈہ ہے جس کو ہنوز پورا نہیں کیا گیا ۔ نتیجہ میں دونوں ملکوں کی سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی فکر میں وادی کشمیر کو ایک خوفناک ریاست میں تبدیل کردیا گیا ۔ وادی کی صورتحال پر دونوں پڑوسی ملکوں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان رسہ کشی جاری ہے ۔
حالیہ کشیدگی کے بعد سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے ۔ حال ہی میں کارگل دیوس منایا گیا ۔ اس موقع پر شہیدوں کو خراج بھی پیش کیا گیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وادی کشمیر کی صورتحال کو پرامن بنانے کے لیے کچھ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔ لیکن مرکز کی بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت دفعہ 35A پر اپنی رائے ظاہر کر کے کشمیر کی صورتحال کو پھر ایک بار مکدر کرنا چاہتی ہے ۔ سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر محبوبہ مفتی نے دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے خلاف انتباہ دیا اور کہا کہ اس سے نہ صرف ایک ہاتھ جل جائے گا بلکہ سارا کشمیر پوری شدت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہوگا ۔ وادی کشمیر میں دھماکو صورتحال کی وجہ مرکز کی جانب سے زائد فورس کی تعیناتی ہے ۔ نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیاں وادی کو بھیج کر مودی حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ پڑوسی ملکوں کے خلاف چوکسی کا اقدام ہے ۔
جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے آئین ہند کی دفعہ 35 اے تجاوز سے نہ کیا جائے تو یہ ایک بہترین عمل کہلائے گا ۔ لیکن فی الحال کانگریس کی صفوں میں ماتم چھایا ہوا ہے ۔ اس لیے وہ مرکز کا ہاتھ روکنے سے قاصر ہے ۔ وادی میں اضافی فوج کی گشت نے تشویش پیدا کردی ہے ۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہم اس وقت مشکل حالات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ وادی کشمیر کا ایک اپنا ایجنڈہ ہے اور ان کا اپنا ایک آئین ہے جس کی حفاظت ہر ایک کشمیری کی ذمہ داری ہے ۔
وادی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کے ذریعہ پاکستان کا سفر کیا تھا لیکن بعد کے دنوں میں جو بھی حکومت آئی اس نے عام شہریوں کے احساسات کا خیال نہیں رکھا ۔ واجپائی کے دورے کے بعد ’ لاہور اعلامیہ ‘ جاری کیا گیا تھا جس میں دونوں ممالک کے لیڈروں نے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کا پابند کرتے ہوئے نیوکلیر تیاریوں سے گریز کا مشورہ دیا گیا لیکن صورتحال نازک بنانے والوں نے اب دفعہ 35 اے کو حذف کرنے کی کوشش شروع کی ہے ۔
کشیدگی کو کم کرنے یا دور کرنے کے لیے جس جذبہ کی ضرورت ہے اس کو پیش نظر رکھ کر ہی حکومت ہند نے کوئی پیشرفت نہیں کی ۔ پاکستان کے ساتھ جنگ سے گریز کرتے ہوئے ہندوستان نے محتاط رویہ اختیار کرلیا ہے مگر اس سے غیر ذمہ دارانہ ماحول کی بو آرہی ہے ۔ دونوں ملکوں کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر کچھ نہ کچھ واقعات ہورہے ہیں ۔ تاہم اس مسئلہ کو موضوع بناکر اضافی فورس کی تعیناتی سے وادی کے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا مناسب عمل نہیں ہے اور یہ قومی قیادت کے شایان شان نہیں ہے کہ دفعہ 35A کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی جائے۔۔