سوچتا ہوں تو پریشان سا ہوجاتا ہوں
کہ مرے بعد بھی آباد رہے گی دنیا
ہندوستان ‘ جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن گیا ہے ۔ ملک کی معاشی ترقی تیز رفتار ہو رہی ہے اور یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ ہندوستان آئندہ ڈھائی تین سال میں جرمنی کو بھی پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہوجائیگا اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن کر بھی ابھر سکتا ہے ۔ عالمی سطح پر ہندوستان کی سیاسی اور معاشی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ بھی ہونے لگا ہے ۔ ساری دنیا ہندوستان کی صلاحیتوں کی معترف ہو رہی ہے اور مستقبل میں ہندوستان کی اہمیت میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔ ملک کیلئے یہ ایک بہت اچھی خبر ہے کہ ہندوستان نے جاپان جیسے ملک کو معاشی حیثیت سے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں چوتھے مقام پر پہونچ گیا ہے ۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے کے باوجود ہندوستان میں عوام غریب کیوں ہیں ؟ ۔ یہ سرکاری ڈاٹا ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان بھر میں 80 کروڑ افراد کو حکومت کی جانب سے مفت راشن دیا جاتا ہے ۔ 80 کروڑ افراد ماہانہ پانچ کیلو راشن حکومت سے مفت حاصل کرتے ہیں۔ مرکزی حکومت بارہا یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ کروڑوں افراد کو مفت راشن فراہم کر رہی ہے ۔ اس دعوی کا مطلب یہی ہے کہ یہ 80 کروڑ افراد اب بھی خط غربت سے نچلی زندگی گذار رہے ہیں۔ انہیں دو وقت کی روٹی بھی ٹھیک ڈھنگ سے دستیاب نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت بھی ان افراد کو محض پانچ کیلو راشن ماہانہ مفت فراہم کرتی ہے جو بہت کم ہے ۔ تاہم حکومت لگاتار دعوے ضرور کرتی ہے ۔ حکومت کے دعووں کے مطابق 80 کروڑ لوگ اب بھی خط غربت سے نچلی زندگی گذار رہے ہیں اور ہمارا ملک عالمی سطح پر ترقی کی منزلیں طئے کرتا جا رہا ہے ۔ ملک میں مہنگائی انتہاء کو پہونچ رہی ہے ۔ بنیادی اشیاء تک بھی عوام کو آسانی سے دستیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ دودھ جیسی بنیادی ضرورت کیلئے بھی بھاری رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ ملک میں کروڑوں نوجوان روزگار کے متلاشی ہیںاور انہیں کوئی ڈھنگ کی ملازمت ملنی مشکل ہوگئی ہے ۔ وہ ملازمت کیلئے لگاتار دھکے کھا رہے ہیں۔
گریجویشن ‘ پوسٹ گریجویشن اور اعلی تعلیمی ڈگریاں رکھنے والے نوجوان بھی ملک میں معمولی سی ملازمتوں کیلئے ترس رہے ہیں۔ 80 کروڑ عوام خط غربت سے نچلی زندگی گذار رہے ہیں جو ملک کی آبادی کے نصف سے زیادہ ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے کے بعد یہ دولت کن ہاتھوں میں ہے ؟ ۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان یقینی طور پر معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے اور ایک بڑی طاقت بن رہا ہے تاہم یہ طاقت در حقیقت مٹھی بھر افراد کی حد تک محدود ہے ۔ مٹھی بھر افراد ہیں جو بے تحاشہ دولت کے مالک بن گئے ہیں اور ان کی دولت میں لگاتار اور بہت تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ جہاں تک ملک کے عام آدمی کا سوال ہے تو وہ دو وقت کی روٹی کیلئے ہی تگ و دو میں مصروف کردیا گیا ہے ۔ کوئی بڑے خواب دیکھنے کی عام آدمی میں ہمت نہیں رہ گئی ہے ۔ یہ لوگ دو وقت کی روٹی اور مریضوں کیلئے وقت پر مناسب دوا کیلئے ہی جدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں ۔ یہ ملک کی دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور نامناسب نظام کا نتیجہ ہے ۔ کہیں ماہانہ پانچ کیلو راشن پر عوام کو ٹال دیا جا رہا ہے تو کہیں مٹھی بھرا فراد سارے ملک کی دولت پر راج کر رہے ہیں اور ان کی دولت بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے عوام کے مفاد میں ہرگز نہیں ہوسکتی ۔ صرف چند تجارتی اور ذی اثر گھرانوں میں دولت کا ہونا ملک کی ترقی کی ضمانت نہیں ہوسکتا ۔ ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے ضروری ہے کہ ملک کے ہر شہری کو ملک کی دولت میں اس کی جائز اور واجبی حصہ داری حاصل ہوجائے ۔
ملک میں کوئی ایسا نظام قائم ہونا چاہئے جس کے ذریعہ حقیقی ضرورت مندوں کوملک کی ترقی کے ثمرات پہونچائے جاسکیں۔ انہیں ترقی کے سفر میں شریک کیا جائے ۔ ان کی غربت کا خاتمہ کیا جائے ۔ عوام کو مفت راشن پر اکتفاء کرنا نہ پڑے ۔ ضروری دواؤں کیلئے اپنی قیمتی اشیاء فروخت کرنی نہ پڑے ۔ ملک کا چوتھی بڑی معیشت بننا قابل خیر مقدم ہے لیکن غیر مساویانہ تقسیم کے نظام کو ختم کرتے ہوئے عوام کو اس دولت میں حصہ داری دی جانی چاہئے اور اسی وقت ملک کو حقیقی معنوں میں معاشی طور پر طاقتور سمجھا جاسکتا ہے ۔