دھونس جماکر جمہوری حکمرانی نہیں چلتی!

   

پی چدمبرم

ٹاملناڈو میں جس تہوار کو ’بھوگی‘ کہتے ہیں، ہندوستان کے دیگر حصوں میں اُسے ’لوہری‘ کہا جاتا ہے۔ فصل کٹائی کا زمانہ قریب ہے، یہ وقت بیلوں، گائیوں اور بیلوں کی تعظیم کا ہوتا ہے، اور یہ وقت کاشتکاروں کے ساتھ خوشی منانے کا ہوتا ہے۔ نئے آغاز کی خوشی منانے سے قبل ہمیں ضرور پرانی چیزیں ہٹا دینا چاہئے جیسے مستعملہ کپڑے، ٹوٹا پھوٹا زرعی سامان، اور بے فیض معمولی اشیاء جو گزرے سال کے دوران جمع ہوگئی تھیں۔ بھوگی کے دن ہم ان چیزوں کا علامتی اَلاؤ بناتے ہیں۔ اگلے روز پونگل یا سنکرانتی یعنی فصل کٹائی کا تہوار ہوتا ہے۔ ’جلی کٹو‘ (سانڈ ؍ بیل کو بس میں کرنا) ٹاملناڈو میں خوشیاں منانے کا حصہ ہے۔ ’پرانی چیزوں کو ہٹاؤ، نئی اشیاء لاؤ‘ فصل کٹائی کے وقت کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے موقع پر میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اگلی حکومت کا خیرمقدم کرنے سے قبل ہم کیا چیزیں نکال پھینک سکتے ہیں۔ میں چند نکات کو اُجاگر کرپایا ہوں۔

جارحانہ روِش
اول یہ کہ ہمیں ضرور دھونس جمانے کا رویہ ترک کرنا چاہئے جس سے مسائل ایسے پیچیدہ ہوجاتے ہیں کہ مملکت کی طاقت کے مظاہرے کے ذریعے حل نہیں کئے جاسکتے۔ جموں و کشمیر میں جارحانہ روش نے منحوس شکل اختیار کرلی ہے جو طاقت سے ڈرانا، فوجی نوعیت کی چالوں پر عمل کرنا اور اکثریتی غلبہ قائم کرنا ہے، جس سے ایک گوشے کی پوری آبادی الگ تھلگ ہورہی ہے اور نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے۔ ایک قابل نوجوان شخص جو 2010ء کے آئی اے ایس بیاچ کا ٹاپر رہا، مایوسی اور ناامیدی میں اپنی سرویس سے مستعفی ہوگیا۔ شمال مشرقی ریاستوں میں طاقت پر مبنی رویہ نے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی تیاری میں عجلت دکھائی اور ابتداء ً 40,07,707 افراد کو شامل نہیں کیا گیا جنھوں نے یکایک خود کو ریاست و ملک میں اجنبی پایا۔ یہی روش اب شہریت ترمیمی بل کو نسلی آبادی پر لاگو کرنے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے جس کی وجہ دیگر ممالک خاص طور پر بنگلہ دیش کی ’ستائی گئی اقلیتوں‘ کیلئے غیردرست فکرمندی ہے۔ اس طرح طاقت کے زور پر کام کا طریقۂ کار ضرور ختم ہونا چاہئے۔

دوم، ہمیں ضرور غیرمنصفانہ قوانین کو منسوخ یا ان کی مکرر تدوین کرنا چاہئے۔ اس معاملے میں سرفہرست آئی پی سی کا سیکشن 124A ہے جو ’غداری‘ کی توضیح کرتا ہے۔ یہ ضرور پورا، مجموعی طور پر اور ہر طرح سے ختم کردیا جانا چاہئے۔ قانون مسلح افواج (خصوصی اختیارات) جو طاقت کے اس حد تک استعمال کی اجازت دیتا ہے موت کا سبب بن جائے، اسے ضرور منسوخ کیا جائے یا اس میں وسیع طور پر ترمیم کرنا چاہئے۔ محصول اشیاء و خدمات (GST) کے قوانین کو ضرور مکمل طور پر ازسرنو ترتیب دینا چاہئے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے کہ اُس نے سنٹرل جی ایس ٹی ایکٹ (جو قانونی اصطلاحوں کے ساتھ انگریزی زبان میں منظور کیا گیا) کو سمجھ لیا ہے تو ایسا شخص قانون کا امتحان کامیاب کرنے کی ضرورت کے بغیر ’بار‘ (Bar) میں داخلہ دیئے جانے کا مستحق ہے! جی ایس ٹی قوانین میں انسداد نفع خوری دفعہ ضرور حذف کرنا چاہئے۔ اسٹارٹپس (بزنس ونچرز) پر ’اینجل‘ ٹیکس بھی ضرور ختم ہونا چاہئے۔
غریبوں سے امتیاز
سوم، ناقص طور پر ترتیب دی گئی اور فطری طور پر (غریبوں کے خلاف) امتیازی اسکیمات ضرور ختم کی جائیں اور ان کی جگہ ایسی اسکیمیں لائیں جو مطلوبہ نتائج فراہم کریں گی۔ اس ضمن میں طویل فہرست ہے: مدرا لونس، سوچھ بھارت (کلین انڈیا) جس کے تحت ٹائلٹس بنائے گئے جو استعمال نہیں ہوئے یا ناقابل استعمال ہیں، فصل بیمہ یوجنا (کراپ انشورنس اسکیم) جو کسانوں کو لوٹ کر بیمہ کمپنیوں کو مالا مال کرتی ہے، کوشل وکاس یوجنا (اسکلنگ پروگرام) جو تربیت پانے والے صرف 28 فیصد حصے کو کام دلانے میں کامیاب ہوپایا ہے، اور آیوشمان بھارت (تمام کیلئے صحت) جس کیلئے فنڈ ناکافی ہے اور اس میں وہ غریب شامل نہیں جو خانگی اسپتالوں سے رجوع نہیں ہوسکتے ہیں۔ آپ اس فہرست میں اپنے سے متعلق اسکیمات کے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اضافہ کرسکتے ہیں۔ ان اسکیمات میں سنگین خامیاں دور ہونا ضروری ہیں۔

چہارم، آدھار کی زیادتیوں کو پلٹانا ضروری ہے۔ آدھار ایکٹ نے حکومت کو اختیار دیا کہ آدھار کو صرف ’سبسیڈیز، فوائد اور خدمات‘ کی منتقلی کیلئے لاگو کریں۔ حکومت نے اپنی اتھارٹی سے تجاوز کیا، کئی دیگر کاموں کیلئے آدھار فراہم کرنے اصرار کیا اور کافی شخصی مواد اکٹھا کرلیا۔ یہ غیرقانونی طور پر حاصل شدہ ڈیٹا حذف کردینا چاہئے۔ یہ کام کس طرح کیا جاسکتا ہے اس سوال کا جواب اگلی حکومت کی جانب سے دیا جانا چاہئے۔
ای وی ایم بخلاف بیالٹ
آخر میں، کئی شہری فکرمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (EVMs) کو ہٹاکر بیالٹ پیپر سسٹم پر واپسی کی جائے۔ دوسری طرف، الیکشن کمیشن اور حکومت ای وی ایمز کے معاملے میں قسمیں کھاتے ہیں۔ میں نے ای وی ایمز کی حمایت کی جس کی وجہ درست ووٹوں کے استعمال میں آسانی پیدا ہونا ہے، لیکن مجھے کئی جگہوں پر ای وی ایمز کی کام کرنے میں ناکامیوں نے الجھن میں ڈال دیا۔ یہ موجب بنا کہ میں نے VVPATs کیلئے زور دیا۔ اب، (ہر حلقہ میں) ایک ای وی ایم اور ایک وی وی پی اے ٹی کی گنتی کو ملاکر دیکھا جارہا ہے۔ ایک حلقہ میں اوسطاً 250-300 پولنگ بوتھس ہوتے ہیں۔ لہٰذا، الیکٹرانک یونٹس میں ’شرارت ‘ کا پتہ چلانے کے امکانات 1 فیصد سے کم ہیں۔ اس لئے، میں نے اپیل کی کہ ہر ای وی ایم کی گنتی کو وی وی پی اے ٹی سلپس کی گنتی کے ساتھ ضرور جوڑ کر دیکھیں۔ یہ دلیل کمزور ہے کہ رائے شماری اور نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوگی۔ اگر الیکٹرانک ووٹنگ کے عمل میں عظیم تر بھروسہ حاصل ہوتا ہے تو نتائج کی تین یا چار گھنٹوں کی تاخیر سے اعلان میں کچھ نقصان ہونے والا نہیں ہے۔
میں پُراعتماد تھا کہ میری اور دیگر کی تجویز بیالٹ پیپرز کے طریقۂ کار پر واپسی کے مطالبے کیلئے اطمینان بخش جواب ہوگا، لیکن مسٹر جی سمپت کی ایک اخبار (دی ہندو، 22 جنوری 2019ئ) میں شائع عمدہ دلائل والی تحریر نے میرا جوش ماند کردیا۔ مصنف کے مطابق صرف پیپر بیالٹ سسٹم ہی ووٹ کی بصری تصدیق، خفیہ رائے دہی اور دکھائی دینے والی رائے شماری کی تین آزمائشوں پر پورا اُترے گا۔ EVM-VVPAT سسٹم تمام تینوں ٹسٹ میں ناکام ہوتا ہے جیسا کہ جرمن کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے فیصلے نے ثابت کیا ہے۔ مصنف موصوف یا جرمن عدالت سے عدم اتفاق کرنا مشکل ہے۔ اس لئے، جہاں میں نہیں کہہ سکتا کہ ای وی ایمز کو ہٹادیا جانا چاہئے، وہیں ہمیں مطالبہ کرنا چاہئے کہ تمام پولنگ اسٹیشنوں میں گنتیوں کو ملاکر دیکھنا جائے۔
اگر ہم کوڑا کرکٹ سے چھٹکارہ پاسکیں تو شاید ہمیں حوض؍ تالاب سے پینے کا پانی نصیب ہوسکتا ہے۔