دہلی۔ روہنگیائی کیمپ کی تقریب بیماریوں کے سائے میں منائی گئی۔

,

   

ایک کمرہ جس میں بیت الخلاء ندارد ہے کی تعمیر کلام اور ان کی اہلیہ اپنے دوبچوں کے ساتھ ملکر کی ہے۔ مذکورہ کیمپ کی شروعات اپنے گھر کے احساسات کے ساتھ اس وقت شروع ہوئی جب پچھلے سال 15اپریل کے روز 47مکانات آگ کی نظر ہوگئے تھے۔

نئی دہلی۔ دس سال قبل جب فیض الکلام چھوٹا تھا وہ‘ بنگلہ دیش کے لئے میانمار سے نقل مقام کیاتھا۔ جب اس کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو اس نے خود کو جموں میں پایا‘ اور چھ ماہ بعد دہلی کے کالندی کنج روہنگیا کیمپ پہنچا۔

ایک کمرہ جس میں بیت الخلاء ندارد ہے کی تعمیر کلام اور ان کی اہلیہ اپنے دوبچوں کے ساتھ ملکر کی ہے۔ مذکورہ کیمپ کی شروعات اپنے گھر کے احساسات کے ساتھ اس وقت شروع ہوئی جب پچھلے سال 15اپریل کے روز 47مکانات آگ کی نظر ہوگئے تھے۔

ایک سال کا عرصہ گذر گیا مذکورہ مکانات کی دوبارہ تعمیر نہیں ہوئی ہوئی اور 200سے زائد لوگ اس سے متصل پلاٹ پر عارصی مکانات کی تعمیر کررہے ہیں‘

اور اس میں بلانکٹس کا کپڑا‘ میٹریس‘ لکڑے کے دورازوں او رکارڈ بورڈ کا استعمال کررہے ہیں‘ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جس پر آگ لگ سکتی ہے۔

سلیم اللہ(35)جو یہاں پر رہتے ہیں اور دوکان چلاتے ہیں نے کہاکہ ”زکوۃ فاونڈیشن آف انڈیا(زیڈ ایف ائی) کو مکانات تعمیر کرنا تھا‘ مگر ایسا نہیں ہوا ہے۔

پچھلے سال رمضان میں ملے عطیات کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے یہ ڈھانچہ تیار کیاہے“۔

زیڈ ایف ائی کے صدر ڈاکٹر سید ظفر محمد نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ ”مرکز نے علاقہ میں تعمیری سرگرمیوں پر روک کے نوٹس جاری کی ہے‘ ہم نہیں جانتے کہ کب او رکیسے یہ امتناع برخواست کیاجائے گا“۔

سابق پلاٹ پھولوں پر ہریلی سے لبریز ہوگیا ہے۔ جو نیا کیمپ کے بازو میں ہے‘ پریشان کردینے والی گرمی 66روہنگیائی خاندان کے لئے آفت بنی ہوئی ہے‘ الکٹرسٹی کنکشن عارضی ہے اور جب ”لائن“ منقطع ہوجاتی ہے تو کرایہ پر حاصل پنکھے اور کولرس ناکارہ ہوجاتے ہیں۔

کلیم (26)کو رکشہ کرایہ کا رکشہ چلاتے ہیں نے کہاکہ ”بچے اس سے شدید متاثرہورہے ہیں‘ انہیں ہیضہ اورریشوں کی بیماری ہورہی ہے۔

پچھلے ماہ میں اپنے دو بچوں جن کی عمر تین او رپانچ سال کی ہے تین مرتبہ ڈسپنسری لے کر گیا‘ ہروقت اس کا اثر میرے کام پر پڑتا ہے“۔سلیم اللہ کے لئے آگ نے دوہرا نقصان کیا‘ ان کی کرانہ کی دوکان مرکز روڈ پر تھی جو آگ کی نظر ہوگئی۔

انہوں نے کہاکہ ”میں نے اس کو دوبارہ کھڑا کیا‘ مگر جب سے یہ یہاں لوگوں کی آمد درفت کم ہوگئی ہے‘ لوگ یہاں پر روکنے میں قباحت محسوس کررہے ہیں‘ کیونکہ یہ موثر نہیں ہے“۔عید کی تقریب بھی کیمپ میں سست رہی ہے۔

سلیم اللہ نے کہاکہ ”اگر ہم قدیم میں چلاجاتے تو ہوسکتا عید کا جشن مناتے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ گرمی کی مار کاشکار ہیں“۔

گرما ختم ہونے کے ساتھ دوسرا مسئلہ بار ش کے پانی کا ہے۔ ایک رہائشی محمد شاکر نے کہاکہ ”مذکورہ کیمپ نچلی سطح پر ہے۔ اگر معمولی بارش بھی ہوتی ہے تو پانی ہمارے گھروں میں داخل ہوجاتا ہے اور ہمارے لئے نئی مشکلات پیدا کرتا ہے۔

ایسا پچھلی مرتبہ بھی ہوا تھا“۔ یہا ں سے کچھ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ شاہین باغ میں بے گھر لوگوں کا ایک حصہ بھی ہے جو یوپی کے ایودھیا سے یہاں پر ائے 85روہنگیائی فیملی پر مشتمل ہے جو میانمار سے ہندوستان پہنچی ہیں۔

یہاں پر بھی ہاوزنگ کالونی کالیند کنج میں بھی تین سو سے زائد لوگوں کے لئے پانچ ہاتھ کے پمپ لگائے گئے ہیں۔

ٹائفاٹ کے مرض سے ٹھیک ہونے والے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے30سالہ محمد ایاز جو پچھلے ایک ہفتہ سے کام نہیں کررہے ہیں نے کہاکہ پچھلے ایک مہینے میں انہیں کم سے کم چار مرتبہ اپنے دس سال کی بیٹے کو قریب کی ڈسپنسری لے جانا پڑا ہے۔ایاز نے کہاکہ”اس کو قئے او ردست کے ساتھ پیٹ کی شکایت تھی۔

گرمی کی وجہہ سے اس کے ہاتھ تک جھلس گئے‘ ڈاکٹرس نے اس کو او ار ایس پلانے کو کہا ہے“۔ پچھلے ہفتہ جب گرمی 47ڈگری تک پہنچ گئی تھی تب ایاز اپنے دونوں بچوں کو کلندی گنج میٹرو اسٹیشن لے کر گئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ ”ہم صرف سیڑھوں پر بیٹھے تھے۔

وہاں پر یہا ں سے کم گرمی تھی اور معصوم نے رونا بند کردیا“۔ تیس سالہ راشیدہ بیگم نے کہاکہ ”گرمی سے بچنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے‘ یہاں تک کہ پانی آلودہ او ربدبودار ہے۔

چھوٹے بچے اس کا استعمال بند کردیا ہے اور وہ بیمار پڑگئے ہیں۔

اگر یومیہ اجرت پر آپ کام کرنے والے ہیں تو پینے کا پانی کافی مہنگا ہے۔

پندرہ سے بیس روپئے فی پانی کا کیان ہے۔ پانچ لوگوں کی فیملی کے لئے یہ کافی مہنگا ہے کیونکہ ان کے پاس زیادہ بوتلیں استعمال ہوتی ہیں‘ کچھ دنوں تک ہم نے ہینڈ پمپ کے پانی پر انحصار کیاہے“۔