رہ گئی ہے دل کی دل میں بات افراتفری میں
پر لگاکر اُڑ گئے لمحات افراتفری میں
مرکزی زیر انتظام علاقہ دہلی میں اسمبلی انتخابات آئندہ سال ماہ فبروری میں منعقد ہوسکتے ہیں۔ اس کیلئے حالانکہ الیکشن کمیشن سے ابھی کوئی شیڈول جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی آپسی رسہ کشی نے افرا تفری کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ سیاسی جماعتیں ابھی سے انتخابی مہم شروع کرچکی ہیں اور ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ خاص طور پر برسر اقتدار عام آدمی پارٹی اور اپوزیشن بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سرگرمیوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔ حالانکہ دہلی میں کانگریس بھی انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کرے گی اور اپنے امیدواروں کا بھی وقفہ وقفہ سے اعلان کر رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی نے ایک دوسرے کے درمیان ہی مقابلہ کو ظاہر کرنے کیلئے کانگریس کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دن عام آدمی پارٹی کی جانب سے تو کسی دن بی جے پی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف ایسا کچھ کیا جاتا ہے جس کو میڈیا میں کافی تشہیر ملتی ہے ۔ کبھی مہیلا سمان یوجنا کے نام پر تو کبھی کسی اور وجہ سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ 2023 کے اسمبلی انتخابات سے قبل تلنگانہ میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا جب بی جے پی اور بی آر ایس کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ تنقیدیں کی جا رہی تھیں اور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ کانگریس پارٹی یہاں مقابلہ میں نہیں رہ گئی ہے ۔ اصل مقابلہ بی آرایس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے ۔ یہی صورتحال دہلی میں بھی دہرانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور عام آدمی پارٹی اور بی جے پی اس ڈرامہ بازی کی صورتحال میں اپنا اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ انتخابی عمل کے دوران سیاسی سرگرمیوں میں تیزی اور شدت پیدا ہونا معمول کی بات ہے لیکن جس طرح سے ابھی سے ماحول کو گرم کیا جا رہا ہے وہ دونوں ہی جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کا ہی حصہ نظر آتا ہے ۔ میڈیا بھی ایسا لگتا ہے کہ اس حکمت عملی کا حصہ بنتے ہوئے اپنا رول ادا کرنے میں جٹ گیا ہے ۔
ویسے تو انتخابی عمل کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات بھی عام بات ہیں۔ ماحول گرم ہوا کرتا ہے لیکن دہلی میں جو صورتحال پیداکی جارہی ہے وہ دوسری ریاستوں سے مختلف کہی جاسکتی ہے ۔ اروند کجریوال چیف منسٹر کی ذمہ داری سے سبکدوشی کے بعد انتخابی سرگرمیوں کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں اور بی جے پی نے بھی اپنی ساری توجہ دہلی پر مرکوز کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کردیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکمت عملی بنانے میں آزاد ہوتی ہیں اور اسی کے مطابق انتخابات میں مقابلہ کیا جاتا ہے لیکن دہلی میں یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ عوام کو گمراہ کرنے کی حکمت عملی پر دونوں جماعتیں عمل پیرا ہوگئی ہیں۔ بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے منظم انداز میں الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ شرو ع کردیا گیا ہے ۔ کچھ اسکیمات کا حکومت کی جانب سے اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ عوامی مقبولیت حاصل ہوسکے تاہم بی جے پی کی جانب سے ان پر اعتراض کرتے ہوئے رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے ۔ یہ سب کچھ بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے لیفٹننٹ گورنر کا استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ بھی ایسا لگتا ہے کہ راج بھون کی بجائے عوام میں زیادہ وقت گذارتے ہوئے افرا تفری کے حالات کو مزید شدت دینے کیلئے اپنی جانب سے پوری طرح سرگرم رول ادا کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی اپنی انتخابی حکمت عملی ہوسکتی ہے اور وہ اس پر عمل پیرا ہوسکتی ہیں تاہم دہلی کے عوام کو ساری صورتحال پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ مسائل سے ان کی توجہ ہٹے نہیں ۔ وہ سیاسی کھیل میں استحصال کا شکار ہونے کی بجائے غور و فکر کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ آئندہ پانچ سال کیلئے انہیں اپنی پسند کی اور عوام کیلئے کام کرنے والی حکومت قائم ہوسکے ۔ کسی انتخابی ہتھکنڈے اور حربے یا پھر کسی سازش کا شکار ہونے کی بجائے فہم و فراست کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ترجیحات اور مسائل کی بنیاد پر ووٹرس کو ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔ یہ ان کی سمجھداری کا امتحان بھی کہا جاسکتا ہے ۔