دہلی میں اسمبلی انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کا امتحان ہونے والا ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے اور اَب سیاسی و انتخابی سرگرمیاں عروج پر پہونچنے والی ہیں۔ ویسے تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی انتخابی سرگرمیوں کا بہت پہلے سے آغاز کردیا گیا تھا اور عوام سے مختلف وعدے کئے جارہے تھے، عوام کو رجھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی تھی۔ ایک دوسرے پر الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا اور اس میں اخلاقیات اور اقدار کو پوری طرح سے پامال کیا جانے لگا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے دہلی اسمبلی انتخابات کو ایک طرح کا دنگل بناکر رکھ دیا تھا۔ ویسے تو یہ سب کچھ انتخابی عمل کا حصہ ہی ہے لیکن اخلاقی سطح کا ہر بار لحاظ رکھا جانا ضروری ہے جو اَب نہیں رکھا جارہا ہے۔ خاص طور پر دہلی میں برسرِ اقتدار عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے مابین جس طرح کے تبصرے کئے جارہے ہیں وہ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔ ایسا تاثر عام ہورہا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک خاموش مفاہمت کے تحت کانگریس کو انتخابی منظر نامہ میں کہیں پیچھے ڈھکیل رہی ہیں۔ یہ تاثر عام کیا جارہا ہے کہ انتخابی منظر نامہ میں یہی دو جماعتیں رہ گئی ہیں‘ اسی کے تحت لگاتار میڈیا کی توجہ مبذول کروائی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں جماعتیں جس طرح کی سیاست کررہی ہیں وہ انتہائی منفی ہی کہی جاسکتی ہے کیونکہ اخلاقیات کو پامال کیا جارہا ہے، سطحی ریمارکس کئے جارہے ہیں اور عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹائی جارہی ہے۔ عوام سے ایسے وعدے کئے جارہے ہیں جس کو بنیاد بناکر ایک دوسرے پر تنقیدیں کی گئی تھیں۔ کوئی بھی جماعت عوام کے سامنے دہلی کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے کوئی جامع اور موثر منصوبہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہے اور نہ ہی اس تعلق سے انہیں کوئی دلچسپی نظر آتی ہے۔ عوام کو صرف مفت کے وعدوں سے رجھانے اور ان کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے پر ہی توجہ کی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عوام کی بہتری اور دہلی کی ترقی کو صرف کچھ وقت کی سہولیات تک محدود کرکے دیکھا اور دکھایا جارہا ہے۔
یہ اندیشے بھی ظاہر کئے جارہے ہیں کہ بی جے پی حسب روایت انتخابات سے قبل منظم حکمت عملی کے ذریعہ حالات کو بگاڑنے کی کوشش کرے گی اور نفرت کا بازار گرم کیا جائے گا۔ ایسے مسائل میں عوام کو اُلجھانے کی کوشش ہوگی جن کا راست دہلی یا دہلی کے عوام کی بہتری اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔یہ مسائل صرف سماج میں اور عوام میں دوریاں پیدا کرنے کے مقصد سے ہی اُٹھائے جائیں گے اور بی جے پی کی یہ ہمیشہ کی حکمت عملی رہی ہے۔ گذشتہ دہلی انتخابات سے قبل کے واقعات اور فسادات اس کی مثال ہیں۔ اَب ایک بار پھر سے اشتعال انگیز تقاریر اور نعروں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور ایسی زبان بولی جائے گی جو کم از کم ذمہ دار سیاسی قائدین کو استعمال نہیں کرنی چاہیئے۔ تاہم سیاسی قائدین کو اَب کسی امیج کی فکر نہیں رہ گئی ہے اور صرف انتخابی کامیابی ہی ان کا واحد مقصد رہ گئی ہے۔ جہاں بی جے پی کھلے عام اس طرح کی حکمت عملی اختیارکررہی ہے وہیں عام آدمی پارٹی مفت خدمات کی فراہمی کی آڑ میں مذہبی سیاست پر اُتر آئی ہے۔ پارٹی نے دہلی میں مندروں کے پجاریوں اور دوسرے مذہبی خدمت گاروں کیلئے ماہانہ بھاری وظیفہ کا اعلان کیا ہے لیکن مساجد کے ائمہ اور مؤذنین کو یکسر فراموش کردیا ہے۔
جہاں بی جے پی اشتعال انگیزی کی سیاست کے ذریعہ دہلی میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے وہیں عام آدمی پارٹی عوام کو صرف مفت سہولیات کی فراہمی میں ہی اُلجھا کر رکھ دینا چاہتی ہے۔ کانگریس پارٹی خاموشی کے ساتھ اپنی انتخابی حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے۔ اس صورتحال میں دہلی کے رائے دہندوں کو اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا استعمال کرنا چاہیئے اور جذباتی و اشتعال انگیز نعروں اور وقتی اور معمولی فائدوں سے بالاتر ہوکر دہلی اور دہلی کے عوام کے بہتر مستقبل کے منصوبے رکھنے والی پارٹی اورسنجیدہ جدوجہد کرنے والے امیدواروں کو منتخب کرکے منفی سیاست کرنے والوں کو اپنے ووٹ کے ذریعہ منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔