نئی دہلی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ) جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری‘ سوارج ابھیان کے لیڈر یوگیندر یادو‘ ماہر معاشیات جیاتی گھوش اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا آنند کے ناموں کو ضمنی چارج شیٹ میں دہلی پولیس نے فبروری فسادات کے ضمن میں شامل کیاہے‘
ان پر الزام عائد کیاکہ مخالف سی اے اے احتجاجیوں کے لئے”اکسانے اور منظم“ کرنے کاکام کیا ہے۔
پہلے سے ایس کیس میں گرفتار کئے گئے تین طلبہ کے بیانات کی بنیاد پر کچھ لوگوں کے نام بھی شامل کئے گئے ہیں جن پر الزامات لگائے گئے ہیں
کہ انہوں نے احتجاجیوں ”کسی بھی حد تک“ جانے کو استفسار کیا‘ سی اے اے‘ این آرسی کو مخالف مسلمان بتاتے ہوئے کمیونٹی میں ”عدم اطمینان“ پھیلائیں اور ”حکومت ہند کی شبہہ کو متاثر“ کرنے کے لئے احتجاجی مظاہروں کومنعقد کریں۔
نارتھ ایسٹ دہلی ضلع میں فبروری 23اور26لہ درمیان میں ہوئے فسادات کے ضمن میں پولیس کی جانب سے دائرکردہ ضمنی چارج شیٹ میں ان کے نام شامل کئے گئے ہیں جس کے ایک کاپی پی ٹی ائی کے ہاتھ بھی لگی ہے‘
مذکورہ فسادات میں 53زندگیاں ضائع ہوئی اور581لوگ زخمی ہوئے اور97لوگوں کو ان میں سے گولیوں لگی ہیں۔
بعدازاں جب یہ ایک سیاسی جھگڑے میں تبدیل ہوا تو دہلی پولیس کے ذریعہ نے اس سارے معاملے کو نمٹنے کی کوشش کی‘
کہہ رہی ہے کہ ملزمین میں سے ایک نے اپنے بیان میں ان کے ناموں کاانکشاف کیاہے۔مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے ان کے خلاف چارج شیٹ دائر نہیں کی ہے وہیں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے
کہ چارج شیٹ میں ملزم ٹہرائے گئے کسی ایک کے ”نام لینے“ اور کچھ الزامات کے تحت ان کے نام کو ماخوذ کرنے کے درمیان کے فرق کو زور دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کے تبصرے پر دوبارہ کوشش کے بعد یوگیندریادو نے کہاکہ ”میرے حوالے سے کی جانے والے کوئی بھی بات میری تقریر کی وجہہ سے ایک سزا کی وجہہ نہیں ہے۔
مجھے حیرت اس بات پر ہورہی ہے کہ دہلی پولیس نے میری تقریر جوعوامی پلیٹ فارم پر دستیاب ہے اس کی جانچ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی ہے“۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی گلفشاں فاطمہ‘ اور جے این یو کے طالبات اور خواتن کی پنجارہ توڑ کے ممبرس دیونگانا کالاتیا اور ناتاشا ناروال کے بیانات کی بنیاد پر ان اہم شخصیات کے نام شامل کئے گئے ہیں۔
مذکورہ تینوں کے خلاف یو اے پی اے کے سخت دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس سے محض دو دن قبل منظرعام پر ائی اس چارج شیٹ میں مذکورہ دہلی پولیس نے دعوی کیاہے کے کالاتیا اور ناروال نے قبول کیاہے کہ ان کانہ صرف فسادات میں وہ شامل تھے بلکہ گھوش‘ اپورا آنند اور ڈاکیومنٹری فلم میکر راہول رائے کے نام ان کے مشیر کے طور پر لئے ہیں‘
جنھوں نے مبینہ طور پر ان سے کہاتھا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے منظم کریں اور ”کسی بھی حدتک جائیں“۔
جے این یو اسٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈسمبر میں دریا گنج میں احتجاج منظم کیاتھا اور فبروری 2020میں سی اے اے کے خلاف جعفر آباد میں گھوش‘ اپورا آنند اور ائے کی ایماء پر چکا جام کیاتھا۔
اپنے سلسلہ وار ٹوئٹس کے ذریعہ چارج شیٹ پر یچوری نے اپناردعمل پیش کیاہے۔انہوں نے کہاکہ ”دہلی پولیس مرکز او رہوم منسٹری کے ماتحت ہے۔
اس کے ناجائز غیر قانونی کاروائی بی جے پی کی اعلی قیادت کا راست نتیجہ ہیں۔
مرکزی دھاری کی سیاسی پارٹیوں کے جانب سے قانونی طور پر جائز او رپرامن احتجاج سے وہ گھبرائے ہوئے ہیں اور اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے لئے وہ اقتدار کا غلط استعمال کررہے ہیں“۔
ایک اور ٹوئٹ میں یچوری نے سوال پوچھا کہ کیوں فسادات کے دوران کی گئی ”نفرت پر مشتمل تقریر“ کی جانچ نہیں کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ”یہاں پر زہر الود تقریر کاویڈیو ہے‘ اس کو آگے کیوں نہیں لایاجارہا ہے؟ کیونکہ حکومت نے احکامات جاری کئے گئے ہیں اپوزیشن کو کسی بھی صورت میں محروس کریں۔
مودی اور بی جے پی کا یہ حقیقی چہرہ‘ کردار‘ حربہ اور سونچ ہے۔ اس کی مخالفت ہوگی“۔
مذکورہ چارج شیٹ میں دعوی کیاگیا ہے کہ یچوری او ریوگیندر یادو کے علاوہ فاطمہ کے بیان میں بھیم آرمی سربراہ چندرشیکھر راؤن‘ یو اے ایچ کے جہدکار عمر خالد اور کچھ مسلم قائدین بشمول سابق رکن اسمبلی متین احمد‘اور رکن اسمبلی امانت اللہ خان کے ناموں کا بھی ذکر کیاگیاہے