دہلی فسادات معاملہ‘ دیوینگانا کالٹیا‘ نتاشا نروال‘ آصف اقبال کی ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کی۔

,

   

نئی دہلی۔ دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس سدھارتھ مردیول او رانوپ جئے رام بھامبانی پر مشتمل ایک ڈویثرن بنچ نے آصف اقبال تنہا اور پنجرا توڑ جہد کار نتاشا نروال اور دیونگانا کالٹیا کودہلی فسادات معاملے کی بڑے پیمانے پر سازش میں یواے پی اے کے تحت گرفتاری پر ضمانت کو منظوری دیدی ہے۔


ضمانت کے لئے دو مقامی لوگوں کی 50,000کی شخصی ضمانت ادا کرنے ہوں گے۔ ضمانت کے لئے شرائط ان کے پاسپورٹس کی حوالگی اور کیس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں ہونا ہے۔

نروال اورکالیٹا جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرس ہیں‘ پنجرہ توڑ سے وابستہ ہیں‘ جو2020مئی سے عدالتی تحویل میں ہیں۔

حال ہی میں نروال کو متوفی والد کے آخری رسومات کی انجام دہی کے لئے ضمانت منظور کی تھی۔ قبل ازیں پچھلے سال دہلی میں پیش ائے فسادات میں بڑے پیمانے پر سازش سے متعلق ایک کیس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹ آصف اقبال تنہا کی درخواست ضمانت پرفیصلہ کو دہلی ہائی کورٹ نے محفوظ کردیاتھا۔

جسٹس سدھارتھ مردیول اور جسٹس بھامبھانی پر مشتمل ڈویثرن بنچ نے فیصلہ محفوظ کردیاتھا۔ یواے پی اے کے تحت گرفتار کئے گئے تنہا نے 26اکٹوبر2020کو اپنے درخواست ضمانت مسترد کردئے جانے کے فیصلے کو چیالنج کیاتھا۔

ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے یہ محسوس کرتے ہوئے درخواست ضمانت کومستر د کردیاتھا کہ ابتدائی جانچ میں تنہا کے خلاف معاملات ساری سازش میں مبینہ سرگرم رول ادا کرنے والے دیکھائی دے رہے ہیں۔

ملزم تنہا کی جانب سے ایڈوکیٹ سدھارتھ اگرول پیش ہوئے تھے اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے دہلی کورٹ میں پیش ہونے والے وکیل امان لیکھی تھے۔

دہلی فسادات سازش معاملہ میں دہلی پولیس نے مذکورہ ایف ائی آر59/2020درج کئی‘ جملہ 15لوگوں کے اس میں نام شامل ہیں اور تنہا‘ نروال کے علاوہ کالیٹا بھی اس کاحصہ ہیں۔ پولیس کا دعوی ہے کہ تنہا نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجوں کو منظم کرنے میں تنہانے اہم رول ادا کیاہے۔

اسبات کا بھی الزام لگایا گیاہے کہ وہ صفورہ زرخر‘ عمر خالد‘ شرجیل امام اوردیگر کے قریبی ساتھی تھے‘ اور یہ بھی کہ وہ ”سی اے اے احتجاج اور قومی درالحکومت میں فسادات میں کلیدی ممبر تھے“۔

اس کے علاوہ تنہا پر اس بات کابھی پولیس نے ایف ائی آر میں الزام عائد کیاکہ دیگر کے ساتھ ملکر مسلم اکثریت والے علاقے میں راستہ روکو کے ذریعہ ”حکومت کو درہم برہم“ کرنے کی کوشش کی ہے۔

پولیس نے اس بات کا بھی دعوی کیاکہ تنہا نے فرضی دستاویزات داخل کرتے ہوئے ایک موبائیل سم کارڈ خریدا جس کا استعمال راستہ روکے‘ فسادات کی منصوبہ بندی میں کیاہے۔

اس کے علاوہ اس نمبر کااستعمال ایک واٹس ایپ گروپ کی تشکیل کے لئے بھی کیاگیاتھا۔

یہ بھی دعوی کیاگیا کہ سم کارٹ کا اس کے ساتھ جامعہ کے ایک اوراسٹوڈنٹ شریک ملزم صفور ہ زرخر کو بھی فراہم کیاگیا تھا تاکہ مزید احتجاج کو منظم کیاجاسکے۔