دہلی فساد چارج شیٹ ہندو۔ مسلم اتحاد روکنے کی سازش

   

ظفر آغا
خبردار جو زبان چلائی، ! نانی دادی کی پچپن کی یہ گھڑکی بھلاکون بھول سکتا ہے۔ لیکن یہ کبھی ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ واقعی زبان چلانا وطن عزیز میں سب سے بڑا گناہ ٹھہرے گا۔ جی ہاں، ان دنوں ہندوستان میں زبان چلانا کیا، زبان ہلانا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ تب ہی تو ان دنوں اخبار اٹھائے اور بس کسی نا کسی باعزت اور پڑھے لکھے مذہبی شخص کی گرفتاری یا چارج شیٹ کی فہرست میں اس کے نام کی خبر پڑھ لیجئے۔ آپ ان دنوں دہلی فساد کے سلسلے میں دہلی فساد کی چارج شیٹ کی خبریں پڑھ ہی رہے ہوں گے۔ دہلی شہر کا ایسا کون سا پڑھا لکھا اور نامی گرامی سماجی جہد کار ہوگا کہ جس کا نام اس چارج شیٹ میں نہیں ہے۔ سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری سے لے کر پروفیسر اپوروانند، پرشانت بھوشن، شاعر گوہر رضا، شنبم ہاشمی نا جانے کتنے لوگوں کے نام اس چارج شیٹ میں موجود ہیں۔ عمر خالد اور صفورا زرگر جیسے نوجوان طالب علم تو جیل کی ہوا کاٹ رہے ہیں۔

ان سب کا گناہ کیا ہے! صرف اتنا کہ ان تمام افراد نے دہلی میں ہونے والے شاہین باغ احتجاج میں حصہ لیا تھا اور شہری قانون کے خلاف حکومت وقت کے خلاف زبان چلائی تھی۔ دہلی پولیس کی پوری شاہین باغ تحریک جس نے ساری دنیا میں دھوم مچادی وہ پوری کی پوری تحریک کب سازش بن گئی اور اس میں شامل ہونے والا ہر چھوٹا، بڑا ملک دشمن ہوگیا کیونکہ دہلی پولیس کے مطابق یہ تمام لوگ جو شاہین باغ تحریک سے جوڑے تھے وہ سب کے سب مودی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش کررہے تھے۔ لیکن شاہین باغ تحریک کا دہلی کے فساد سے کیا تعلق تھا! بقول دہلی پولیس وہ تمام لوگ جو شاہین باغ تحریک میں پیش پیش تھے انہوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے اندر جان بوجھ کر فساد کی سازش رچی تاکہ دنیا بھر میں یہ شور مچ جائے کہ مودی حکومت مسلم مخالف حکومت ہے۔

یہ تو رہی دہلی پولیس کی چارج شیٹ کی کہانی لیکن ایک اندھے کو بھی یہ سمجھ میں آجائے کہ یہ تو محض ایک کہانی ہے کیونکہ دہلی فساد سے بافی سب واقف ہیں کہ بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا ہیں جن کے بھڑکاو بھاشن کے ویڈیو آج تک موجود ہیں۔ لیکن چارج شیٹ میں ان کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس نے جو چارج شیٹ تیار کی ہے وہ اپنے سیاسی آقاوں کے اشارے پر تیار کی ہے۔ دہلی پولیس ہندوستان کی وزارت داخلہ کے زیر نگوں ہوتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دہلی پولیس کس کے اشاروں پر کام کررہی تھی۔ چارج شیٹ سے ظاہر ہے کہ حکومت شاہین باغ تحریک سے بے حد ناراض تھی اور اسی وجہ سے وہ ہر اس شخص کو سبق سکھانا چاہتی تھی جس کا اس تحریک سے دور دور کہیں بھی واسطہ تھا۔

لیکن شاہین باغ تحریک میں ایسی کیا بات تھی کہ جس نے حکومت کو اسقدر خفا کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ شاہین باغ سے حکومت خفا ہی نہیں بلکہ خائف بھی تھی۔ اس کے کئی وجوہات ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ یہ ایک ایسی انوکھی تحریک تھی جس نے حکومت کو اس کے خلاف تحریک کے دوران کوئی بھی قدم نااٹھانے پر مجبور کردیا کیونکہ اس تحریک کی روح رواں بڑی کثیر تعداد میں مسلم عورتیں تھیں۔ دہلی کے اوکھلا علاقے کی شاہین باغ بستی کی مین سڑک پر عورتیں حکومت کے شہری قانون 2019 کے خلاف پرامن دھرنے پر بیٹھ گئیں۔ ایسی کثیر تعداد مسلم خواتین کی تھی۔ لیکن اس مسلم گروہ کے احتجاج کا ایک بالکل انوکھا اور نیا انداز تھا جس نے اس تحریک کو نہ صرف سارے ہندوستان میں بلکہ عالمی شہرت عطا کی۔ ملک کے بٹوارے سے قبل مسلم لیگ تحریک سے بابری مسجد تحفظ تحریک تک اس ملک کی ہر مسلم تحریک کا انداز انتہائی جذباتی اور بہت حد تک مذہبی نعرہ تکبیر جیسے نعروں پر منحصر رہا ہے۔ شاہین باغ تحریک وہ تحریک تھی جس میں کوئی جذباتی یا مذہبی رنگ نہیں تھا۔ بلکہ اس تحریک میں شامل ہر شخص کے ہاتھ میں ملک کا آئین تھا اور اس کا بنیادی مقصد ملک کے سیکولر کردار کا تحفظ کرنا تھا کیونکہ اس تحریک کے بانیوں کا خیال تھا شہری قانون کے ذریعہ حکومت نے شہریت کی بنیاد مذہب پر رکھ کر ہندوستانی آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور ملک کے سیکولر کردار کو کمزور کیا ہے۔

یہ دلیل اس قدر صحیح تھی کہ شاہین باغ نے جلد ہی ملک بھر میں ایک لہر پیدا کردی اور سارے ہندوستان میں شہر شہر ایسے ہی مظاہرے شروع ہوگئے، صرف اتناہی نہیں اس تحریک کی حمایت میں ہزاروں کی تعداد میں سارے ملک سے سیکولر ہندووں نے شاہین باغ پہنچنا شروع کردیا۔ ایک ایک دن میں شاہین باغ میں پچاس پچاس ہزار اور ایک بار ایک لاکھ کے قریب ہندو ، مسلمان، سکھ، عیسائی سب اکٹھا ہونے لگے۔ آپ نے خبروں میں پڑھا ہوگا کہ ایک سکھ بھائی نے اپنا فلیٹ بیچ کر اس کی ساری رقم اس تحریک کے لنگر پر خرچ کردی۔ پھر پنجاب سے آئے ان سکھوں کا بیٹا آکر شاہین باغ تحریک کی حمایت میں دھرنا دینے لگا۔ بس اس بات نے بی جے پی حکومت کے ہوش اڑا دیئے کیونکہ اگر اس ملک کے ہندو۔ مسلم ۔ سکھ۔ عیسائی سب مذاہب کے لوگ کسی ایک پلیٹ فارم پر اگر اکٹھا ہو جائیں تو بس پھر تو بی جے پی کا خاتمہ ہی ہو جائے گا کیونکہ بی جے پی تو اس وقت بی جے پی ہے جب تک ہندو۔ مسلم آپس میں لڑتے رہیں لیکن شاہین باغ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا جس نے اس ملک کے ہندو۔ مسلم کے خلاف کھڑی کی گئی نفرت کی دیوار گرادی۔ بس اسی بات نے بی جے پی اور اس کے آقاوں کے ہوش اڑا دیئے کیونکہ اگر ہندو ۔ مسلم منافرت ختم تو بی جے پی حکومت ہی ختم۔ او بس اس بات سے بوکھلالی بی جے پی نے سازش رچنی شروع کردی کسی طرح اس تحریک کی کمر توڑ کر اس کو بدنام اور ختم کرو۔ بی جے پی کے کپل مشرا کی تقاریر سے پولیس کی موجودگی میں فساد شروع ہوئے وہ اس سازش کے ایک مہرا تھے۔ پھر جیسے تین دن گجرات فسادات کے دوران پولیس خاموش کھڑی رہی ویسے ہی دہلی میں بھی تین دن تک گجرات ماڈل پر فساد چلتے رہے اور دہلی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور اب وہی پولیس اپنے سیاسی آقاوں کے اشارے پر دہلی فسادات کو ایک سازش کہہ کر ہر اُس ہندو۔ مسلم کا نام اس چارج شیٹ میں شامل کر رہی ہے جس نے شاہین باغ پر امن تحریک میں چھوٹے سے چھوٹا کردار نبھایا۔

دراصل دہلی پولیس چارج شیٹ کا مقصد محض شاہین باغ تحریک کو بدنام کرنا ہی نہیں بلکہ اس تحریک میں حصہ لینے والے ہر شخص کو ایسا سبق سکھانا ہے کہ وہ پھر کبھی شاہین باغ تحریک جیسا دوسرا تجربہ کرنے کی جرت نہ کرسکے کیونکہ اگر شاہین باغ پھر ہوا تو ہندو ۔ مسلم پھر اکھڑے ہو جائیںگے اور اگر ایسا ہوتا چلا گیا تو پھر بی جے پی کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ دہلی پولیس چارج شیٹ ہندو۔ مسلم ایکتا کو روکنے کی ایک سازش ہے۔ دیکھتے ہیں آخر یہ کب تک کامیاب ہوتی ہے۔