دہلی میں ایک جوس کی دوکان جو مسلمان چلارہا ہے‘ پر بجرنگ دل کارکنوں نے کیاہنگامہ ’تھوک جہاد‘۔

,

   

مسلمانوں کو معاشی بحران کا شکار بنانے کے مقصد سے کی جانے والی ایک ہندوتوا سازشی نظریہ تشکیل دینے کے لئے ”لوجہاد کے طرز پر تھوک جہاد“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے


بجرنگ دل کارکنوں نے ایک ہندو دوکاندار راجو پر اعتراض کرتے ہوئے ہنگامہ کھڑ ا کردیا‘ جس نے اپنی دوکان سابق کے نام سے ایک مسلم جوس بیچنے والے کو کرایہ پر دی تھی۔ دہلی کے نجف گڑھ میں جوس کی دوکان کے مالک راجو نے اپنی دوکان ”راجو جوس او رشیکس“ کو محمد زائد نامی شخص کو کرایہ پر دیا جو اس دوکان کو اسی بیانر پر چلا رہا ہے۔

واقعہ کے اس ویڈیو میں جو سوشیل میڈیا پلیٹ فارمس پروائرل ہوا ہے میں ہندوتوا ممبرس بتایاجارہا ہے ان کا تعلق بجرنگ دل سے ہے بھگوا اسکارف پہنے ہوئے ہیں دوکان دار سے پوچھ تاچھ کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں‘ جو ہندونام سے ایک مسلم چلارہا ہے۔ اس بات کا نشاندہی کے بعد نے دوکان محمد زائد چلار ہے ہیں انہوں نے اعتراض کیا اورراجوسے استفسار کیاکہ وہ ایک ”ہند و نام کے بجائے“ ایک”مسلمان نام پر دوکان کو بورڈ تبدیل کریں۔

انہوں نے کہاکہ”اگر مسلمان دوکان چلارہا ہے تو دوکان کی نام کے بورڈ پر ہندو نام کیوں ہے؟“۔ دوکان کے مالک کا جواب ہے کہ کرایہ پر دینے سے قبل ہی سے یہ نام ہے۔

انہوں نے الزام لگایاکہ”بارکوڈ پر اس کا نام آرہا ہے۔

اس کا نام کیوں نہیں دیتے جو دوکان چلا رہا ہے؟“۔ دوکاندار نے پوچھا کہ ”نام میں کیارکھا ہے‘ اس سے کیامسئلہ ہے؟ہندو نام مت دو‘ الجھن پیدا ہوتی ہے۔

یہ تھوک جہاد طرح طرح کے ڈرامے کرتے ہیں“۔مسلمانوں کو معاشی بحران کا شکار بنانے کے مقصد سے کی جانے والی ایک ہندوتوا سازشی نظریہ تشکیل دینے کے لئے ”لوجہاد کے طرز پر تھوک جہاد“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”اگر مسلمان جوس پیلا رہا ہے تو مسلمان کا نام لکھو اس میں۔ پیسے وہ لے رہا ہے۔ زائد پیلا رہا ہے تو زائد کا نام لکھواؤ۔ تبدیل کروالینا اس کو“۔ اس پرمالک نے کہاکہ وہ نام تبدیل کرادیگا۔

مالک نے مزید کہاکہ ”اگر اس کو خالی کرادیں گے تو اس کی زندگی پر اثر پڑیگا۔ مجھے جو نقصان ہوگا اس کا الگ۔ وہ پہلے ہی کام کررہا ہے‘’ایسے کرتے ہوئے کرایہ دار کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد بجرنگ دل کارکنوں نے دوکان کرایہ پر ایک ہندو کو دینے کا کہا ہے۔

انہوں نے دعوی کیاکہ ”ایک ہندو جوس بناسکتا ہے۔

ہمیں کچھ نہیں معلوم کہ وہ اس میں تھوک رہے ہیں اور ہندو مزے لے کر پی رہے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آیا انہوں نے اس میں تھوک دیایا اس میں پیشاب کیایاہندوؤں کو نامرد بنانے کے لئے دوائیں شامل کیں“۔