دہلی میں علاقائی قائدین

   

ٹھکانے لگ گیا آخر بڑے بڑوں کا غرور
بھر سبھا میں ہمارا جواب سچ نکلا
دہلی میں علاقائی قائدین
دارالحکومت دہلی ہمیشہ ہی سے علاقائی قائدین کی توجہ کا مرکز رہا ہے ۔ ہر لیڈر ، ہر تنظیم اور گروپس یا فرد واحد بھی اپنی شکایت ، مطالبہ اور یادداشت لے کر دہلی کا رخ کرتا ہے ۔ ان میں کسی کو کامیابی ملتی ہے تو کئی کو ناکامی ہوتی ہے ۔ ان دنوں قومی دارالحکومت میں علاقائی قائدین کی شکایتوں اور شور و غل کو شدت سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس کی وجہ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی اور اس کے قائدین کی یکطرفہ حکمرانی ہے ۔ ریاستوں کے ساتھ مرکز کا رویہ ہمیشہ معاندانہ تو نہیں رہتا مگر حالیہ برسوں میں مرکز نے ریاستوں کو جوتی برابر درجہ دے کر اپنی بالادستی کا مہر ثبت کردیا ہے ۔ مرکز کے اس آمریت پسندانہ مزاج کے خلاف علاقائی قائدین کو بھوک ہڑتالی کیمپ سجانے کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ آندھرا پردیش کو خصوصی موقف دینے کا وعدہ کر کے اسے نظر انداز کرنے والی مرکزی حکومت کو اس کا وعدہ یاد دلانے کے لیے ہی چیف منسٹر اے پی این چندرا بابو نائیڈو نے پیر کے دن ایک روزہ بھوک ہڑتال کی ۔ مغربی بنگال کی ٹی ایم سی حکومت کے ساتھ بھی مرکز کا سلوک افسوسناک ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو کی اس بھوک ہڑتال میں تقریبا اپوزیشن قائدین نے حصہ لیتے ہوئے مودی حکومت کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ علاقائی مسائل کی یکسوئی کے لیے وہ مرکز سے نبرد آزما ہونے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔ صدر تلگو دیشم نے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند سے ملاقات کر کے یادداشت بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اب دہلی میں ایک کے بعد ایک علاقائی لیڈر اپنی مورچہ بندی کے ذریعہ مودی حکومت کو اس کے فرائض کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کرے گا ۔ چیف منسٹر مغربی بنگال بنرجی نے بھی دہلی پہونچ کر احتجاج کا منصوبہ بنایا ۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ علاقائی قائدین اپنی ریاستوں سے دہلی کو جانے والی سیاسی سڑک کو کشادہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس سیاسی سڑک کو مودی حکومت نے بند کردیا ہے ۔ مگر ان قائدین کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ مودی حکومت نے اگر ان کے راستے کو بند کردیا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہر طرف راستہ بند ہے ۔ سامنے کا راستہ بند ہے تو دوسرے بہت سے راستے کھلے ہوتے ہیں ۔ 2019 کے عام انتخابات ہی ان علاقائی قائدین کے راستوں کی سمت کا تعین کریں گے ۔ اس لیے انہیں اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا ۔ ہر بند سڑک کے پاس لازمی طور پر ایک کھلی سڑک بھی موجود ہوتی ہے ۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش نائیڈو نے ماضی میں این ڈی اے سے ہاتھ ملا کر جو غلطیاں کی تھیں اس کا انہیں تاخیر سے احساس ہوا ہے ۔ اب وہ مودی زیر قیادت این ڈی اے سے حساب برابر کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے اپنے کیڈرس سے کہا تھا کہ وہ وزیراعظم مودی کے دورہ آندھرا پردیش کے خلاف احتجاج کریں ۔ ٹاملناڈو کے خطوط پر تلگو دیشم کارکنوں نے بھی مودی واپس جاؤ کا نعرہ لگایا ۔ مودی نے گنٹور میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران اپنی سیاسی بھڑاس ذاتی و شخصی ریمارک کے ذریعہ نکالی ۔ ان کی تقریر کا یہ لب ولہجہ ہندوستانی وزیراعظم کے شایان معلوم نہیں ہوتا ۔ ایک علاقہ کے سیاسی لیڈر کے لیے وزارت عظمی کے جلیل القدر کے عہدہ کا استحصال کرتے ہوئے مودی نے نائیڈو کے خلاف شدید ریمارک کیے ۔ اس طرح کی سیاسی لڑائی نے ذاتی لڑائی کا رخ اختیار کرلیا جو قومی سیاست کے لیے معیوب بات ہے ۔ مودی نے عام انتخابات کے لیے اپنی انتخابی مہم کی ابتداء سیاسی مخالفین سے ہی کی ہے ۔ اپنی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو پیش کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو ظاہر بات ہے وہ اپوزیشن کو ہی موضوع بنائیں گے ۔ بہر حال اس ملک میں جمہوریت قائم ہے ۔ اس کے فائدے سیاستدانوں کو پہونچتے رہیں گے ۔ لیکن ایسے سیاستدانوں جو جمہوریت کی چھتری تلے اپنے سیاسی مفادات کی پوجا کریں گے انہیں جمہوریت پسند عوام ہی سبق سکھائیں گے ۔۔