دہلی میں چندرابابو نائیڈو کا پلان بی ، این ڈی اے میں واپسی ممکن!

,

   

سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ، آندھراپردیش کے دارالحکومت امراوتی کو مرکز کی امداد کے بغیر ترقی کیسے ہوگی؟

حیدرآباد 21 مئی (سیاست نیوز) قومی سطح پر ہو یا ریاستی سطح پر سیاست میں قائدین کی دل بدلی اور وفاداریاں تبدیل ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ صدر تلگودیشم و چیف منسٹر آندھراپردیش این چندرابابو نائیڈو کے تعلق سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ وہ دہلی میں اپنے پلان B پر عمل کرسکتے ہیں۔ آئندہ چند گھنٹوں کے دوران قومی سطح پر ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے قبل اور مابعد نتائج کیا موقف رہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اصل سوال ہمیشہ اُٹھتا رہے گا کہ آیا چندرابابو نائیڈو ریاست آندھراپردیش کے نئے دارالحکومت امراوتی کی ترقی کا خواب مرکزی مالیاتی حمایت کے بغیر پورا کرسکیں گے؟ چندرابابو نائیڈو کا ویژن ہے کہ وہ امراوتی کو عالمی سطح کا شہر بنائیں گے۔ امراوتی کے قلب شہر میں حیدرآباد کے ہائی ٹیک سٹی کے خطوط پر ایک ہائی ٹیک مرکز بنانا چندرابابو نائیڈو کے وقار کا مسئلہ ہے۔ اِن کے لئے یہ چیلنج کی بات ہے کہ وہ مرکز کی تائید حاصل کئے بغیر شہر کو کس طرح ترقی دیں گے۔ شخصی طور پر چندرابابو نائیڈو ابن الوقت سمجھے جاتے ہیں۔ اِن کی صلاحیتیں بھی منفرد ہیں۔ وہ اختراعی مزاج کی حامل شخصیت ہیں، سخت محنت اور فہم و فراست کے مالک بھی ہیں۔ آندھراپردیش میں مالیاتی سرگرمیوں میں اضافہ کا انحصار مرکز کی حمایت پر ہے۔ اگر آندھراپردیش میں اسمبلی انتخابات کے نتائج تلگودیشم کے حق میں ہوں تو چندرابابو نائیڈو دوبارہ چیف منسٹر بنیں گے۔ ایسے میں مرکز میں این ڈی اے کی حکومت دوبارہ اقتدار پر آتی ہے تو نائیڈو کے لئے یہ صورتحال نازک رہے گی۔ ایسی صورتحال پر وہ اپنے پلان B کو روبہ عمل لائیں گے۔ عام انتخابات سے قبل اِن کا موقف مختلف تھا۔ انتخابات کے دوران اِن کے رویہ میں بھی تبدیلی دیکھی گئی اور الیکشن کمیشن کے ساتھ اِن کی رسہ کشی،

عدالتوں میں مقدمات کا سامنا، بی جے پی اور دیگر پارٹیوں سے دوری کے دوران چندرابابو نائیڈو یہ بھول گئے کہ انھیں چند دن بعد انتخابات میں حصہ لینا ہے اور اپنی ریاست میں رائے دہندوں کے اکثریتی ووٹوں سے دوبارہ اقتدار پر آنا ہے۔ چندرابابو نائیڈو نے آندھراپردیش اسمبلی انتخابات میں شکست کی صورت میں پلان B پر عمل کریں گے اور قومی سطح پر رونما ہونے والی صورتحال کے مطابق کام کریں گے۔ اس کی بہترین مثال این ڈی اے کی حلیف لوک جن شکتی پارٹی کے حوالہ سے دی جاسکتی ہے جس کے سربراہ رام ولاس پاسوان ریاست بہار میں کوئی بھی بنیادی اثر رکھے بغیر قومی سطح پر اثرانداز ہیں۔ آندھراپردیش میں تلگودیشم پارٹی کامیاب ہوتی ہے یا ناکام اِن دو صورتوں میں چندرابابو نائیڈو کو مرکزی حکومت سے دوستی رکھنا ضروری ہوگا تاکہ وہ اپنے سیاسی عزائم اور مقاصد کو پورا کرسکیں۔ چندرابابو نائیڈو کا پلان A یہ ہوسکتا ہے کہ اگر تلگودیشم پارٹی آندھراپردیش میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ مرکز سے ہاتھ ملالیں گے تاکہ امراوتی کے منصوبوں کو پورا کرسکیں۔ جس طرح شیوسینا، بی جے ڈی نے بی جے پی کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ کھڑے کرتے ہوئے این ڈی اے میں شمولیت اختیار کی تھی۔ پلان بی میں اگر تلگودیشم کو آندھراپردیش میں ناکامی ہوتی ہے تو دہلی میں قومی سطح کا رول ادا کرے گی۔ چندرابابو نائیڈو اپنے سیاسی تدبر کے ذریعہ یو پی اے کے کنوینر بننے کی کوشش کریں گے یا اِسی عہدہ کے مماثل دوسرا عہدہ دینے کی خواہش کریں گے تاکہ وہ قومی سطح پر اپنے سیاسی موقف کو مضبوط رکھ سکیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی آبائی ریاست میں پارٹی کیڈر کا بھی حوصلہ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ اِس سے چندرابابو نائیڈو کو ریاستی اور قومی سطح پر سیاست کرنے کا موقع ملے گا۔ مرکزی ایجنسیوں (انکم ٹیکس، انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ، سی بی آئی) کی جانب سے کئے جانے والے دھاوؤں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ چندرابابو نائیڈو کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ یو پی اے سے نکل کر دوبارہ این ڈی اے میں شامل ہوجائیں۔ سیاست میں کوئی بھی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ صرف سیاسی مفادات ملحوظ رہتے ہیں۔