جسٹس نے کہا کہ متوفی بچے کے قانونی نمائندوں کے پاس ‘کوئی اخلاقی یا قانونی اختیار نہیں ہے کہ ہوہ ان کو ادا کی جانے والی رقم کے بدلے اس کی جان لے لیں’۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے کار کی زد میں آکر پانچ سالہ بچے کی موت کے معاملے میں دو فریقین کے درمیان سمجھوتہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے معاہدے کو منظور کرنا خون کے پیسے کو مقدس بنانے کے مترادف ہوگا کیونکہ کوئی بھی مہذب معاشرہ خون کی رقم کو منظور نہیں کرے گا۔
جسٹس گریش کٹھپالیا نے بدھ کے روز جاری کردہ ایک حکم میں کہا کہ متوفی بچے کے قانونی نمائندوں کے پاس “کوئی اخلاقی یا قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ ان کو ادا کی جانے والی رقم کے بدلے اس کی زندگی کا سودا کریں۔”
“میرے خیال میں، اس طرح کے تصفیے کی منظوری کے بعد ایف آئی آر کو منسوخ کرنا خون کے پیسے کی تقدیس کے مترادف ہوگا، جسے ہمارا قانونی نظام تسلیم نہیں کرتا۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ خون کی رقم کو منظور نہیں کرے گا۔ یہ مرنے والا بچہ ہے جسے زخموں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد جان کی بازی ہار گئی۔
“اس متوفی بچے کو کسی بھی طرح سے معاوضہ نہیں دیا جا سکتا۔ متوفی بچے کے پیچھے چھوڑے گئے قانونی نمائندوں کے پاس کوئی اخلاقی یا قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ ان کو ادا کی جانے والی رقم کے بدلے اس کی زندگی کا سودا کریں،” جج نے کہا۔
استغاثہ کے مطابق، درخواست گزار وپن گپتا اپنی کار کو “جلدی اور لاپرواہی” سے چلاتے ہوئے ایک ای رکشہ سے ٹکرا گیا جو الٹ گیا اور پانچ سالہ بچہ اس کے نیچے کچلا گیا۔ جس بچے کو آر ایم ایل اسپتال لے جایا گیا اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔
جج کا کہنا تھا کہ آیا ملزم بے دھیانی اور لاپرواہی سے گاڑی چلا رہا تھا یہ مقدمے کا معاملہ ہوگا۔
تصفیہ کے مطابق، فریقین کی طرف سے 1 لاکھ روپے معاوضے کے طور پر منظور کیے گئے تھے جو ملزم کی طرف سے بچے کے قانونی نمائندوں کو ادا کیے جائیں گے، جو نجی مدعا تھے۔
پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ منجیت آریہ نے تصفیہ کی درخواست کی مخالفت کی۔