دہلی یونیورسٹی کے نارتھ بلاک میں راتوں رات ساوکر‘ بوس‘ بھگت سنگھ کا مجسمہ نصب

,

   

مذکورہ پلر راتوں رات نصب کردیاگیا ہے جس کو ڈی یو ایس نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت کے بغیر نصب کیاہے۔

نئی دہلی۔ منگل کی صبح دہلی یونیورسٹی کے طلبہ‘ ٹیچرس اور منتظمین کو نارتھ کیمپس میں ایک نئے ایجاد دستیاب ہوئی جو ایک پلر پر مشتمل ہے جس پر وی ڈی ساورکر‘ بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کی مورتیاں سب سے اوپر لگائی گئی ہیں‘

جس کو اے بی وی پی کی زیرقیادت دیلی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ یونین (ڈی یو ایس یو) نے نصب کیا۔ مذکورہ اے بی وی پی(اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم ہے۔

مذکورہ پلر راتوں رات نصب کردیاگیا ہے جس کو ڈی یو ایس نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اجازت کے بغیر نصب کیاہے۔

جہاں پر پلر نصب کیاگیا ہے وہاں کی فیکلٹی آرٹس کے باب الدخلہ کے پاس متعین ایک گارڈ نے کہاکہ رات دو بجے کے قریب ایک ٹرک میں سبز رنگ کا ڈیرہ جو ڈھانچہ کی شکل میں تھا اندر آیاتھا‘ جس کو گیٹ کے باہر رکھ کر اے بی وی پی کے کارکنوں نے گھیر لیاتھا۔

صبح 9:30بجے ڈیرہ ہٹایاگیا جس کے بعد پلر کا انکشاف ہوا ہے۔

ڈی یو ایس یو کے صدر شکتی سنگھ جس کا نام نصب پلر کا قائم کرنے والوں کے نام میں تحریرہے نے کہاکہ ”اس یاد گار کو قائم کرنے کے متعلق متعدد مرتبہ ہم نے یونیورسٹی عہدیداروں کو تحریر کے ذریعہ اجازت مانگی‘

آخری نومبر اور اس مارچ اپریل میں اور پھر اگست میں مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ لہذا ہم نے فیصلہ کیاکہ یہ کام کو خود ہی انجام دیں“۔

پلر سرخ پتھر میں تیار کیاگیا ہے جس پر مورتیاں نصب ہیں۔پلر پر تحریر ہے کہ ”آزادی کے ہیرو ویر ساورکر‘ بھگت سنگھ‘ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی مورتی تنصیب 20اگست2019کو کی گئی“۔

سنگھ نے کہاکہ ”تینوں کے راستے الگ الگ تھی مگر تینوں کی منزل ایک ہی تھی۔ ہم اس کے ذریعہ چاہتے ہیں کہ نوجوان لوگ ان کی شرکت داری کے متعلق جانکاری حاصل کرسکیں“۔

سنگھ کے مطابق ممتاز سنگ تراش کے ہاتھوں جئے پور میں پلر کی تیاری عمل میں ائی ہے جس کا نام انہیں یاد نہیں ہے اور وہ ”ایک یاد ودن قبل“ دہلی لائے گئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ یونین کی جانب سے کی گئی ہجومی فنڈنگ کے ذریعہ اس کی رقم ادا کی گئی‘ جس کو اے بی وی پی اور ان کے ”دوستوں“نے یہ کام کیاہے۔

مذکورہ پلر کی تنصیب کو کانگریس کی ملحقہ قومی طلبہ تنظیم یونین آف انڈیا(این ایس یو ائی) اور بائیں بازو کی کل ہند اسٹوڈنٹس اسوسیشن (اے ائی ایس اے)‘ بالخصوص ساورکر کی تنصیبات پر اعتراض کیاجارہا ہے۔

این ایس یو ائی کے ریاستی صدر اکشئے لاکرا نے کہاکہ ”اے بی وی پی سبھاش چندر بوس‘ بھگت سنگھ اور ساورکر کو ایک ساتھ لاکر شخصیات کو استعمال کررہے ہیں‘

ان مجاہدین آزادی کی توہین کررہے ہیں جنھوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے اپنی قیمتی زندگی قربان کردی ہے۔

جب ہماری مجاہدین آزادی پولیس مظالم کا سامنا کررہے تھے‘ انہیں اذیت پہنچارہی تھی اور غیرانسانی سلوک کیاجارہاتھا‘

اس وقت دائیں بازو کے شدت پسند انگریزوں سے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے‘ او رکہہ رہے تھے کہ ہندومہاسبھا کے لیڈران 1942کی ہندوستان چھوڑ و تحریک سے دستبرداری اختیار کرلیں گے“۔

اے ائی ایس اے نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ ”ایک پل جو اے بی وپی پی/آر ایس ایس نے خود کو اہم مجاہدین جنگ آزادی کے طو رپر رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے تاکہ تاریخ کو دوبارہ لکھ سکے“۔

دہلی اے ائی ایس اے صدر کاوال پریت کور نے کہاکہ ”ساورکر کو بھگت سنگھ اور بوس کے ساتھ جوڑنے اے بی وی پی کی مایوسی کا حصہ ہے‘

تاکہ ساوار کے ہندوراشٹرا کو اہمیت دی جاسکے“۔

ڈی یو نے اس سال کے ڈی یو ایس یو الیکشن کے لئے انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیاہے مگر اب تک انتخابات کی تاریخ کااعلان نہیں کیاگیاہے۔

ڈی یو کے راجسٹرار ترون داس نے کہاکہ ”میں اس واقعہ سے واقف نہیں ہوں مگر ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن وقت کے دوران کچھ بچوں نے یہ کام کیاہے“۔

جب پوچھا گیا کہ اگر کوئی کیمپس میں مجسمہ نصب کرتا ہے تو دس نے کہاکہ پروٹکٹر اس معاملے کو دیکھیں گے۔ پروٹکٹر نیتا سہگال نے تبصرے کے لئے فون کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔