کورونا وائرس نے ملک کے تمام بڑے شہروں کو تہس نہس کردینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ملک کے دیہی علاقوں کا رخ کیا ہے اور وہاں صورتحال انتہائی تباہ کن ہوگئی ہے ۔ کئی گاووں میں ہزاروں افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے ہیں۔ درجنوں افراد فوت ہو رہے ہیں اور یہاں انتہائی خوف کا عالم ہے ۔ لوگ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگے ہیں۔ جہاںشہروںاور ٹاونس میں عوام کو آکسیجن کی سہولت دستیاب نہیں ہوسکی وہیں دیہی علاقوں کی صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ لوگ آکسیجن کے بغیر مر رہے ہیں۔ کئی علاقے تو ایسے ہیں جہاں لوگ بیماری سے سنبھلنے اور دواخانوں سے رجوع ہونے سے پہلے ہی فوت ہوتے جا رہے ہیں۔ بعض متوفی افراد کے لواحقین کا دعوی ہے کہ دواخانوں میں ڈاکٹرس ان کی موت کی وجہ کورونا بتانے کی بجائے قلب پرحملہ کو وجہ قرار دے رہا ہے اور حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عوام کا کہنا ہے کہ گاووں میںکورونا کی وباء نے اب انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرلی ہے ۔ بے شمار دیہی علاقے ایسے ہیں جو کورونا کی لپیٹ میں آگئے ہیں اور کئی کئی گاوں ایسے ہیںجہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ بیمار ہوگیا ہے اور صورتحال اس لئے بھی اور بھی سنگین ہوگئی ہے کیونکہ وہاں ملٹی اسپیشالیٹی تو دور کی بات ہے کہ ابتدائی نگہداشت صحت کے مراکز تک موجود نہیںہیں۔ جن دیہی علاقوں میںیہ مراکز موجود ہیں وہاں یہ کارکرد نہیںہیں۔ اگر کہیںکارکرد ہیں تو ڈاکٹرس نہیں ہیں اور اگر کہیںڈاکٹرس ہیں بھی تو ادویات کی قلت ہے ۔ ایسے میں دیہی علاقوں کے عوام عملا بے یار و مددگار چھوڑ دئے گئے ہیں اور حکومت ان سے بالکل ہی لا تعلق ہوگئی ہے ۔ اترپردیش ‘ گجرات ‘ اترکھنڈ اور دہلی کی سرحدات کے باہر کے علاقوں میںصورتحال انتہائی سنگین ہوتی جا رہی ہے ۔ پنجاب کے دور دراز کے دیہی علاقے بھی اس لپیٹ میں آگئے ہیں ۔ صرف کچھ سماجی کارکن اور این جی اوز ہیں جو ان علاقوں تک اپنے بل پر پہونچتے ہوئے ممکنہ حد تک متاثرین کی مدد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کی کوشش کر رہی ہیں۔ حکومتوں کا سرکاری مشنری کا تو ان علاقوں میں کوئی وجود ہی دیکھا نہیں جا رہا ہے ۔
ملک کے تقریبا تمام بڑے شہروں کی جو حالت ہوئی تھی اس سے سارا ملک واقف ہے ۔ ممبئی ہو کہ دہلی ہو ‘ کولکتہ ہو کہ چینائی ہو ‘ حیدرآباد ہو کہ پونے ہو بھوپال ہو کہ جئے پور ہو تقریبا ہر جگہ دواخانوں میں عدم سہولیات اور انفرا اسٹرکچر کی قلت واضح طور پر دکھائی دی ہے ۔ لوگ آکسیجن کیلئے تڑپ رہے تھے ۔ ایک ایک سانس بھاری ہوگیا تھا اس کے باوجود بے شمار مریضوں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاسکی ہے ۔ سرکاری انفرا اسٹرکچر اور انتظامیہ خاطر خواہ اقدامات میں یکسر ناکام ہوگیا تھا ۔ آج بھی شہری علاقوں میں کئی سماجی ادارے اور تنظیمیں ہیں جو اپنے طور پر متاثرین کی ہر ممکنہ حد تک مدد کیلئے کوشاں ہیں اور حکومتیںصرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ عملی اقدامات جتنے ہونے چاہئیں اتنے نہیں ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں آج بھی صورتحال اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ۔ مریضوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ۔ کئی کئی گھنٹے کوشش کرنے کے باوجود خانگی اور کارپوریٹ دواخانوں میں تک بستر نہیں مل رہے ہیں۔ ایسے میںدیہی علاقوں کی صورتحال کس حد تک ابتر ہوسکتی ہے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ دیہی علاقوں کے عوام کو طبی سہولیات تک اور مواصلاتی نظام تک زیادہ رسائی نہیں ہے اسی لئے وہاں کی صورتحال سے کامل واقفیت ممکن نہیں ہو پا رہی ہے ۔ تاہم یہ ضرور حقیقت ہے کہ وہاں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوگئی ہے اور لوگ صرف کسی انہونی کے منتظر ہیں ۔ انہیں بنیادی طبی سہولیات اور ادویات تک دستیاب نہیں ہو پا رہی ہیں۔
مرکزی حکومت کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ ‘ ریاستیں حکومتوں کے زبانی جمع خرچ اپنی جگہ ہیں لیکن حقیقی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔ حکومتوں کو فوری صرف زبانی دعوے کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماجی اداروں اور تنظیموں کو ساتھ لے کر دیہی علاقوں کے عوام تک رسائی حاصل کرنی چاہئے ۔ انہیں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں۔ ان کی جانیں بچانے کیلئے بھی جنگی خطوط پر اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی کاز کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر حکومت کو اپنے طور اقدامات کرنے اور سرگرم ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔
