رائے۔ اپوزیشن جماعتوں کی کلکتہ میگا ریالی سے یہ پیغام

,

   

اپوزیشن جماعتوں نے صرف تنقید کی مگر کسی نے بھی اقتدار حاصل ہونے پر متبادل سیاسی پروگرام پیش نہیں کیا۔

ہفتہ کے روز کلکتہ کی میگا ریالی سے بہت سارے اپوزیشن جماعتوں نے خطاب کیا ۔ کئی ماہ قبل شروع ہوئی سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے طرز پر ۔ ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطہ میں ہیں ‘ پارلیمنٹ الیکشن کیلئے ریاستوں میں اتحاد قائم کئے ہوئے ہیں‘مسلسل بات چیت کررہے ہیں اور کسانوں کی حمایت میں منعقد ہونے والے احتجاج میں ایک دوسرے کے ساتھ شامل ہیں۔

مگر کلکتہ ریالی کا مظاہرہ اور طاقتوں اپوزیشن اتحاد سے 2019کے لوک سبھا الیکشن کے طریقے کار کا کوئی راستہ نکلتا نہیں دیکھائی دیا۔ان کا ایک ہی نشانہ تھااور وہ جنرل الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) اور بالخصوص وزیراعظم نریندر اس کے علاوہ پارٹی کے صدر امیت شاہ ۔

الیکشن کو تعداد کی طاقت کے مظاہرے کے طور پر پیش کیاگیا تھا ‘ ایک جانب بی جے پی تنہا اور دوسری جانب سارا ملک ان کیساتھ ۔ متحدہ پارٹیوں کے پاس بھی اپنی ایک سونچ تھی ‘ جس کا مرکز حکومت کی معاشی انتظامی پالیسیوں پر ناکامی اور اس اداروں کے متعلق اس کا رویہ ہے۔

لہذا باوجود اس کے ایک مخصوصی سیاسی سونچ کے تحت اپوزیشن جماعتوں نے ہندوستانی رائے دہندوں سے کہاکہ اگر بی جے پی دوبارہ اقتدار میںآتی ہے تو ہندوستان کی جمہوریت او ر دستور دونوں کا خطرہ ہوگا اور یہ بھی کہ غریبوں اور نوجوانوں کی زندگی اس سے متاثر ہوجائے گی۔

کیونکہ الیکشن کا موقع ہے اپوزیشن اور زیادہ سننے کی توقع ہوتی ہے کم سے کم کچھ ایسا جو حکومت اپنی ووٹرس کو قائل کرنے کے لئے ان کے ریکارڈس کو قابل بھروسہ کے طور پر پیش کررہی ہے۔مگر کلکتہ کی ریالی میں تین کمیاں نظر ائیں۔

پہلااپوزیشن جماعتوں نے صرف تنقید کی مگر کسی نے بھی اقتدار حاصل ہونے پر متبادل سیاسی پروگرام پیش نہیں کیا۔اس کے بغیر موجودہ حکومت کے خلاف کسی قسم کی کامیابی اپوزیشن کے لئے بڑا مشکل مرحلہ ہوگی۔ دوسرا اسٹیج پر بیٹھے سبھی پارٹیوں کے درمیان متضاد سونچ ہے۔

تقریب کی میزبانی ترنمول کانگریس نے کی تھی مگر اس میں کانگریس بھی شامل رہی جوعلاقائی سطح پر ٹی ایم سی کی مخالف ہے۔

دیکھا گیاکہ دونوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی کانگریس کے ساتھ شہہ نشین پر تھے ‘ جس کو دونوں یوپی کے اتحاد میں شامل نہیں کیاہے۔سب سے کمزور پہلو بی جے پی نے اپنی مہم کی شروعات ہی اس سے کی ہے اور وہ مشترکہ قیادت کی کمی ہے۔

ممتا بنرجی او رمایاوتی دونوں وزیراعظم کے دعویدار ہیں اور وہ اپنی خواہش چھپانے میں ناکام ہیں‘ اگر کانگریس قیادت کی برقراری کے لئے حد سے تجاوز کرے ‘ بہت ساری پارٹیوں کے بہت سارے لیڈران بھی مانتے ہیں کہ ایسا کانگریس کرسکتی ہے۔الیکشن کے بعد اپوزیشن کی جانب سے اس کی وضاحت سوال ہے