رائے دہی کے تناسب میں اضافہ اور دو قطبی مقابلہ سے کس کا فائدہ

   

وگنیش رادھا کرشن ۔جاسمین نہالانی
یہ ایک تاریخی حقیقت ہیکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں دیہی علاقوں کی بہ نسبت شہری حلقوں میں رائے دہی کا اوسط کم رہتا ہے اور یہ حالیہ اختتام کو پہنچے کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا اور اس ریاست میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی حلقوں پر اس میں نمایاں بہتری آئی۔ ہاں ! گزشتہ 5 برسوں کے دوران کئی شہری حلقوں میں رائے دہی کے اوسط میں قابل لحاظ اضافہ بھی دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر 33 شہری حلقوں میں سے 17 حلقے ایسے تھے جہاں 2023 کے اسمبلی انتخابات کی رائے دہی گزشتہ کے تین اسمبلی انتخابات (2013، 2008 اور 2018 ) کے مقابلہ بہت زیادہ رہی جبکہ 12 شہری حلقوں میں 2008 اسمبلی انتخابات کی بہ نسبت ووٹ شیر میں بھی اضافہ درج کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ہم حلقہ اسمبلی شانتی شکر کی مثال پیش کرسکتے ہیں جہاں رائے دہی کے اوسط میں جاریہ سال 2023 میں 2008 کی بہ نسبت 2023 رائے دہی کے اوسط میں 10.3 فیصد کا اضافہ ہوا۔ 2013 کی بہ نسبت میں 3.4 فیصد پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا۔ کرناٹک میں جہاں شہری حلقوں میں رائے دہی کے تناسب میں اضافہ ہوا۔ شہری حلقوں میں رائے دہندوں کے پیاٹرن یا نمونہ میں تین اہم تبدیلیاں بھی دیکھی گئیں۔ سب سے پہلی تبدیلی یہ دیکھی گئی کہ ان حلقوں میں پہلے تین یا تین سے زائد سیاسی جماعتوں کے امیدوار مقابلہ میں ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ تین یاتین سے زائد سے گھٹ کر دو ہوگئے۔ یعنی گزشتہ دہے سے ہی یہ رجحان دیکھا جارہا ہے اور جو جماعتیں سنجیدہ مقابلہ کرتی ہیں ان پر موثر طور پر انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹی کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں یہ بھی خاص طور پر دیکھا گیا ہے کہ شہری اسمبلی حلقوں کے رائے دہندے جو جنتادل (ایس) امیدواروں کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا کرتے تھے اب وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یا پھر کانگریس کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس طرح شہری حلقوں میں مقابلہ سہ رخی کی بجائے دورخی ہوگیا ہے۔ آزاد امیدواروں اور چھوٹی چھوٹی علاقائی جماعتوں کا حال بھی جنتادل (ایس) کی طرح ہوگیا۔ رائے دہندے ان سے بھی دور ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر حلقہ اسمبلی پدمنابھانکر میں 2008 کے اسمبلی انتخابات کی بہ نسبت اس مرتبہ جنتادل (ایس) کے ووٹ شیر میں 21 پوائنٹس کی کمی آئی ہے۔ 2013 کی بہ نسبت 16 پوائنٹس کی کمی درج کی گئی۔ دراصل ریاست کے 33 میں سے 21 شہری حلقوں میں جنتادل ایس کا ووٹ شیر، 2008، 2013 اور 2018 کی بہ نسبت سب سے کم تھا اور ان حلقوں میں جنتادل (ایس) امیدواروں کو اس بڑی اکثریت سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف ان حلقوں میں بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ شیر میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مہالکشمی لے آؤٹ حلقہ میں جہاں جنتادل (ایس) نے 2013 اور 2018 میں بالترتیب 44 فیصد اور 55 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2023 کے اسمبلی انتخابات میں اس کے امیدوار کو صرف 6 فیصد ووٹ مل سکے۔ زیادہ تر ووٹ بی جے پی کے حق میں گئے۔ چمراج پیٹ جیسے اسمبلی حلقہ میں سال 2008 اور 2013 کے اسمبلی انتخابات میں بالترتیب 48 فیصد اور 52 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے، لیکن حالیہ اسمبلی انتخابات میں جے ڈی (ایس) کے امیدوار کو صرف 15 فیصد ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اس حلقہ میں زیادہ تر ووٹ کانگریسی امیدوار کے حق میں گئے۔ تیسری اہم بات یہ ہیکہ شہری حلقوں میں دو جماعتوں کے درمیان اصل مقابلہ کا کانگریس کو زبردست فائدہ ہوا اور خاص طور پر اس طرح کا رجحان مختلف ریاستوں میں بھی عام طور پر دیکھا گیا۔ اس ضمن میں ہم گجرات، اترپردیش اور دوسری ریاستوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جہاں ماضی میں دو رخی مقابلہ سے بی جے پی کو فائدہ ہوا کرتا تھا لیکن اب کانگریس کو اس کا فائدہ ہو رہا ہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 2018 اور 2023 کے درمیان 33 شہری اسمبلی حلقوں میں سے 7 حلقوں میں بی جے پی کے ووٹ شیر میں 10 پوائنٹ تک اضافہ دیکھا گیا اور کانگریس کے ووٹ شہر میں 4 پوائنٹس کا اضافہ درج کیا گیا۔ اسی طرح 2013 اور 2023 کے درمیان 33 شہری حلقوں میں سے 23 حلقوں میں بی جے پی کے ووٹ شیر میں اضافہ ہوا۔ اس کی بہ نسبت 9 حلقوں میں کانگریس کے ووٹ شیر میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح 2008 اور 2023 کے درمیان بی جے پی اور کانگریس کے ووٹ شیر میں بالترتیب 9 اور دس حلقوں میں 10 پوائنٹس تک اضافہ دیکھا گیا جبکہ دو رخی مقابلہ میں بی جے پی اور پھر کانگریس دونوں کو فائدہ ہی ہوا۔