رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت

   

راستوں کے مرحلے ہیں اور اک لمبا سفر
عزمِ محکم ڈٹ گیا ہے فاصلوں کے سامنے
رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت
ملک بھر میں جو حالات پیدا کردئے گئے ہیں اور جس طرح سے عوام کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس طرح سے ہر مخالفانہ آواز کو دبانے اور کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس نے ملک کے ہر فکرمند شہری کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ لوگ تشویش کا شکار ہیں۔ سیاسی مخالفین ہو یا سماجی مخالفت ہو ‘ نظریاتی مخالفت ہو یا معاشی مخالفت ہو ہر طرح کی مخالفت کو دبانے اور کچلنے کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے ۔ خاص طور پر برسر اقتدار جماعت اور حکومت کسی بھی طرح کی مخالفت کو برداشت کرنے کو تیار نہیںہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں یہی وطیرہ اختیار کیا جا رہا ہے اور ہر کسی کو طاقت کے بل پر خاموش کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کرلیا گیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں کسی کو حکومت کے خلاف بیان دینے کی جازت نہیںہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے ایوان کی کارروائی کو روکنے کی روایت ہمیشہ کی رہی ہے لیکن اب اپوزیشن کو اظہار خیال کا موقع دینے سے روکنے کیلئے خود برسر اقتدار جماعت کے ارکان کی جانب سے ایوان کی کارروائی میں خلل کی نئی روایت بھی شروع کردی گئی ہے ۔ پارلیمنٹ کے باہر میڈیا اور سوشیل میڈیا ٹرولس کی ایک فوج تیار کرلی گئی ہے جو ہر مخالفانہ آواز کو اوچھے سے اوچھے انداز میں بھی نشانہ بنانے میں کوئی عار محسوس نہیںکرتی ۔ طلبا بردری اگر حکومت سے اختلاف کرے تو انہیں جیلوںمیں بند کردیا جاتا ہے ۔ کسی کی بھی عزتوں سے کھلواڑ عام بات ہوگئی ہے ۔ ہر کسی کو حاشیہ پر لانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ایک طرح سے عوام کے ذہنوں میں خوف وہراس پیدا کردیا گیا ہے ۔ لوگ اظہار خیال سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ سیاسی قائدین تک کو بخشا نہیں جا رہا ہے ۔ معمولی باتوں پر جیلوں کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ انہیں مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوںسے خوفزدہ کیا جا رہا ہے ۔ اقلیتوں کے خلاف تو کئی گوشوں نے محاذ کھول دئے ہیں۔ ان کے خلاف زہر افشانی آج کے دور میں معمول بن گئی ہے ۔ سماج کے دبے کچلے طبقات کو بھی ان کا حق دینے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ اس سارے ماحول کو بدلنے کی ضرورت ہے اور ہرفکر مند اور صحیح العقل شہری کو اس پر حرکت میںآنے کی ضرورت ہے ۔
دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس طررح کی صورتحال پر رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوںکو اس میں اپنا سرگرم رول ادا کرنا چاہئے ۔ عوام کو ان کے حقوق کے تعلق سے باشعور بنانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ان کی ذمہ داریاں بھی یاد دلانی چاہئیں۔ دستور اور قانون نے ملک کے ہر شہری کو جو حقوق دئے ہیں ان کا تحفظ کرنے کیلئے سبھی کو آگے آنا چاہئے ۔ اسی طرح ہر شہری کی ملک اور قوم کے تئیں جو دستوری اور قانونی ذمہ داریاں ہیں انہیں بھی پورا کرنے کیلئے سبھی کو آگے آنا چاہئے ۔ دستوری حقوق اور قانون کا تحفظ کرنا ہر شہری کا فرض بھی اور ذمہ داری بھی ہے ۔ عوام کو اس تعلق سے باشعور بنانا چاہئے اور ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے سبھی گوشوںکو کمر کسنے کی ضرورت ہے ۔ طاقت سے خوفزدہ ہوئے بغیر یہ جدوجہد شروع کی جانی چاہئے ۔ ملک میں قانون اور دستور کو بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے ہر شہری کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتوںکو اس معاملے میں اپنا رول ادا کرنے سے خوفزدہ نہیںہونا چاہئے ۔ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے سے دوری ہوسکتی ہے لیکن ملک اور ملک کے عوام کے مفاد میں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سبھی کو مشترکہ کوششیںکرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے اور ہر ایک کی ذمہ داری اور فریضہ بھی ہے ۔ آج کے دور میں جو حالات پیداکردئے گئے ہیں ان میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔
قانون اور دستور کی خلاف ورزی کئے بغیر اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہر شہری کا حق ہے اور سیاسی جماعتوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو ان کے حقوق دلانے کیلئے جدوجہد کریں۔ حکومت کی کارروائیوں اور انتقامی جذبہ سے خوفزدہ ہوئے بغیر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی کارروائیوںکے خلاف قانونی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے اور قانون کا سہارا لیتے ہوئے نا انصافیوں سے مقابلہ کیا جانا چاہئے ۔ حالات کو بدلنے کیلئے جب تک عوام اور سیاسی جماعتیںمشترکہ کوششیں نہیں کریںگی اس وقت تک محض حالات کا گلہ کرنا بے سود ہوگا ۔ حالات بدلنے کی سبھی کو کوشش کرنی چاہئے ۔