راجستھان میں اپوزیشن بی جے پی لیڈر نے کانگریس حکومت بچائی!

,

   

چیف منسٹر گہلوٹ یقینا وسندھرا راجے کے مشکور ہوں گے۔ باغی ڈپٹی سی ایم پائلٹ کا حال ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم …‘‘

نئی دہلی؍ جئے پور: ہندوستانی سیاست میں یہ قول پرانا ہے کہ اس شعبے میں کوئی دوست یا کوئی دشمن مستقل نہیں ہوتا۔ تاہم، ایسا بہت ہی کم ہوا ہوگا کہ کسی ریاستی حکومت کو اپوزیشن لیڈر نے گرنے سے بچا لیا! راجستھان میں حالیہ ہفتوں کی سیاسی اتھل پتھل کا مختصراً یہی نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ اشوک گہلوٹ زیرقیادت کانگریس حکومت کے ڈپٹی چیف منسٹر سچن پائلٹ نے پہلے پہل بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ گہلوٹ حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور کہا کہ اُن کے ساتھ تقریباً ایک تہائی کانگریس لیجسلیٹرز ہیں۔ پائلٹ کی اپوزیشن بی جے پی میں شمولیت کے اشارے ملنے لگے تھے، کچھ اُسی طرح جیسے مدھیہ پردیش میں جیوتر آدتیہ سندھیا نے ایک درجن سے زائد کانگریس ایم ایل ایز کی حمایت کے ساتھ پارٹی سے بغاوت کرکے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے نتیجے میں چیف منسٹر کمل ناتھ کی حکومت گری اور بی جے پی کی طرف سے شیوراج سنگھ چوہان وزارت اعلیٰ پر واپس ہوگئے۔ اس کے عوض سندھیا راجیہ سبھا نشست پر مطمئن ہوگئے۔ تاہم، پائلٹ نے کچھ زیادہ ہی عزائم کا اظہار کیا۔ بی جے پی اور کانگریس کے داخلی ذرائع سے معلوم ہوا کہ انھوں نے ریاستی اپوزیشن پارٹی میں شامل ہونے پر چیف منسٹری طلب کی۔ ڈپٹی چیف منسٹر رہتے ہوئے پائلٹ کا شکوہ رہا کہ سی ایم اپنے فرزند ویبھو گہلوٹ کو اُبھارتے ہوئے پارٹی میں اُن کا حریف پیدا کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں پارٹی ہائی کمان جب انھیں چیف منسٹر بننے کا موقع دینا چاہے تو ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔

مانا کہ آج کل ہندوستانی سیاست میں اقربا پروری کا رجحان موجود ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر چیف منسٹر کا بیٹا سی ایم بن جائے اور ہر پی ایم کا بیٹا وزیراعظم بن جائے! سینئر گہلوٹ پہلے پہل تاڑ نہیں پائے کہ پائلٹ پیٹھ پیچھے کیا کررہے ہیں؟ ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر وسندھرا نے سی ایم کی مدد کرتے ہوئے انھیں حکومت گرانے کی سازش سے واقف کرایا۔ وسندھرا کو چیف منسٹری پر پائلٹ کی نظر بالکل نہیں بھائی۔ ابتداء میں پائلٹ نے راہول گاندھی اور کسی سینئر پارٹی لیڈر نہیں سنی۔ بعد میں جب وسندھرا نے اُن کا سارا کھیل بگاڑ دیا، اور پھر گہلوٹ چوکنا ہوکر زیادہ تر باغی ایم ایل ایز کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگئے ، پائلٹ یکایک یکا و تنہا رہ گئے۔ اُن کے پاس ’گھر واپسی‘ کے سوا راستہ نہ رہا۔ چنانچہ وہ کانگریس قیادت سے ملاقات کرکے تائب ہوگئے!