راجیہ سبھا میں کشمیر سے نمائندگی

   

Ferty9 Clinic


راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر سے کوئی نمائندگی باقی نہیں رہے گی ۔ 15 فروری 2021 کو راجیہ سبھا میں موجود چار ارکان کی میعاد ختم ہورہی ہے ۔ راجیہ سبھا کے لیے جب جموں و کشمیر سے کوئی نمائندگی باقی نہیں رہے گی تو اس کو مستقبل قریب میں دوبارہ نمائندگی کا موقع ملے گا یہ بھی موہوم ہے کیوں کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا بھی امکان نہیں ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ منتخب ارکان کا کالج تشکیل نہیں پائے گا جو راجیہ سبھا کے لیے ارکان یا نمائندوں کو منتخب کرسکیں ۔ جموں و کشمیر میں پے در پے سیاسی تبدیلیاں اور خرابیاں کوتاہیاں اور نمائندگیوں سے محرومی کا چلن شروع کردیا گیا ہے ۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے ۔ جموں و کشمیر کے بارے میں مرکز کی پالیسیوں پر جو کچھ رائے پائی جاتی ہے اس پر کھل کر تو کجا دبے ہونٹ رائے ظاہر کرنے والا بھی باقی نہیں رہے گا تو پھر ریاستی عوام کے لیے یہ ایک اور المیہ ہوگا ۔ اس وقت راجیہ سبھا میں چار ارکان ہیں ان میں غلام نبی آزاد کانگریس ، شمشیر سنگھ بی جے پی ، محمد فیاض پی ڈی پی اور نذیر احمد ( پی ڈی پی سے خارج ) شامل ہیں ۔ ان تمام کی فروری میں میعاد ختم ہورہی ہے ۔ جموں و کشمیر میں کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار نہیں ہے ۔ 18 جون 2018 کو بی جے پی اور پی ڈی پی مخلوط حکومت گرجانے کے بعد جموں و کشمیر میں گورنر راج نافذ کیا گیا پھر نومبر 2018 میں جموں و کشمیر اسمبلی کی تحلیل کے بعد 19 دسمبر 2019 کو صدر راج نافذ کیا گیا ۔ اب ریاست جموں و کشمیر کا کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے کیوں کہ 370 آرٹیکل کی برخاستگی کے بعد یہاں کوئی حکومت نہیں رہی ۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کے بعد لیفٹننٹ گورنر تمام نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں ۔ مرکزی زیر انتظام علاقہ ہونے کے بعد جموں و کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیاں انتخابات کا مطالبہ کررہی ہیں اور ریاست کا درجہ بحال کرنے پر زور دیا جارہا ہے ۔ پارلیمنٹ میں بجٹ سیشن کے دوران کشمیری لیڈر کانگریس کے غلام نبی آزاد نے سابق وزیر اٹل بہاری واجپائی کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے بھی کشمیر کے ٹکڑے کرنے کے لیے نہیں کہا تھا لیکن مودی حکومت نے یہ کام کردیا ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر کو مرکزی زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کردیا ۔ غلام نبی آزاد کی میعاد ختم ہونے کے بعد ایوان میں کشمیریوں کی آواز بلند کرنے والا نہیں رہے گا ۔ وزیراعظم مودی نے غلام نبی آزاد کو ایوان کی میعاد ختم ہونے پر وداعی تقریر میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ مودی کی جذباتی تقریر اور غلام نبی آزاد کی ستائش کرنا ایک فطری بات ہے لیکن ایک حکمراں کی حیثیت سے وزیراعظم مودی نے غلام نبی آزاد کے احساسات اور مطالبات کو نظر انداز کردیا ۔ غلام نبی آزاد چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے ۔ ریاست میں جب سے مرکز نے کنٹرول حاصل کیا ہے ترقیاتی کام ٹھپ ہوگئے ہیں ۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں ۔ اس خطہ میں زندگی گذارنا مشکل کردیا گیا ہے ۔ مرکز نے وعدہ کیا تھا کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ فوری بحال کیا جائے گا لیکن اب مودی حکومت نے جو بل پیش کیا ہے اس سے شبہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت ریاست جموں و کشمیر کو ہمیشہ کے لیے مرکزی زیر انتظام علاقہ بنائے رکھے گی ۔ جب تک یہاں ایک منتخب حکومت تھی مقامی افراد کو روزگار حاصل تھا ۔ اب صنعتیں بند ہورہی ہیں کوئی نئی صنعت بھی قائم نہیں ہورہی ہے ۔ جموں خطہ میں 10 کے منجملہ 7 اضلاع میں کوئی صنعت نہیں ہے اور نہ ہی ان علاقوں تک مناسب ریلوے لائین ہے ۔ کشمیر کو سب سے زیادہ سیاحت سے آمدنی تھی لیکن یہاں کی سیکوریٹی صورتحال نے سیاحت کے شعبہ کو بھی تباہ کردیا ۔ مرکزی حکومت کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے عوام کو ترقی دینے اور یہاں ترقیاتی کام انجام دینے کے لیے فوری اقدامات کرتے ہوئے ریاست کا درجہ بحال کرنے کا اعلان کرے ۔ بہر حال راجیہ سبھا میں کشمیر کی نمائندگی کرنے والے غلام نبی آزاد کی الوداعی تقریر اور ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کا اظہار ان کی 41 سالہ پارلیمانی زندگی کا شاندار مظہر ہے ۔