رافیل اسکام ۔ حکومت کی ہٹ دھرمی

   

تم ہی نے راہ نئی اس طرح بنائی ہے
خوشی تمہاری ہے مجھ کو ملال کیا ہوگا

رافیل اسکام ۔ حکومت کی ہٹ دھرمی
اسکامس میں ملوث ہوکر بھی اگر برسر اقتدار پارٹی کے ارکان خود کو پارسا ثابت کرنے میں مصروف ہیں تو یہ ہندوستان کی بدبختی ہے۔ رافیل معاہدہ میں کروڑہا روپئے کی بدعنوانیوں کے الزامات کو یکسر مسترد کرنے والے آئندہ لوک سبھا انتخابات کے بعد دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا بھی دعویٰ کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر ہندوستانی عوام کو ماتم کرنے کی ضرورت پڑرہی ہے۔ ایک طرف حکومت رافیل جیسے اسکام پر اپنی خرابیوں کو نظرانداز کررہی ہے تو دوسری طرف ملک میں نفرت کی دیوار کھڑا کرکے خراب حکمرانی کی سنگینیوں سے عوام کو بے خبر رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ چار سال سے اس ملک کے عوام نے اپنی کھلی آنکھوں سے حکومت کی سطح پر کئی خرابیوں، زیادتیوں اور فرقہ پرستانہ پالیسیوں کو دیکھا ہے۔ رافیل معاہدہ کی سچائی کو منظر عام پر لانے کی کوشش میں مصروف اپوزیشن پارٹی کانگریس کو سیاسی قوت سے محرومی کا احساس ہے تاہم حالیہ 3 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی نے پارٹی قیادت کو رافیل کے خلاف آواز اُٹھانے کی قوت گویائی عطا کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ رافیل کے اندر کی معاملت کو باہر لانے اور ثبوت اکٹھا کرنے سے قاصر ہے۔ حکمراں پارٹی کے ارکان کانگریس کے دور میں ہوئے بوفورس کیس کے حوالے سے کانگریس کو ہر موقع پر تنگ کرنے کا منصوبہ بناکر اس پر عمل کرتے آرہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی لوک سبھا میں رافیل مسئلہ پر جاری بحث کے دوران وزیر دفاع نرملا سیتارامن نے کانگریس پر الزام عائد کیاکہ وہ رافیل معاہدہ پر ’’جھوٹ‘‘ کی بنیاد پر ملک کو گمراہ کررہی ہے۔ بوفورس اسکام کانگریس کو لے ڈوبا تھا مگر رافیل معاملہ میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ وزیراعظم نریندر مودی پہلے سے زیادہ طاقتور ہوکر اقتدار پر واپس ہوں گے۔ اپنی پارٹی کی حکومت کی واپسی کا یقین رکھنے والے بی جے پی قائدین بوفورس کے مردہ جسم میں اپنی سیاسی آرزوؤں کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ لوک سبھا میں اس موضوع پر دو گھنٹے تک جواب دیتے ہوئے نرملا سیتارامن نے اپوزیشن کے الزامات کا نکتہ بہ نکتہ جواب دینے کی کوشش کی لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہیں کہ آخر حکومت نے ملک کے دفاعی اُمور سے سمجھوتہ کرکے رافیل معاہدہ کے اسکام کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کیوں کی۔ رافیل کو موضوع بحث بنانے والی اپوزیشن بھی حکمراں طبقہ کا مؤثر جواب تیار نہیں کرسکی۔ ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا اور ثبوت پیش کئے جاتے تو اس ملک کے حق میں احسان ہوتا۔ عوام کو یہ یقین دلائے جانے میں کامیابی ملتی کہ واقعی بی جے پی حکومت کے ہاتھ رافیل اسکام سے رنگے ہوئے ہیں۔ آج بوفورس کی بات کرنے والے حکمراں پارٹی کی لیڈر نرملا سیتارامن کا یہ احساس ہے کہ بوفورس نے کانگریس کو غرق کردیا لیکن ان کی پارٹی رافیل اسکام سے اُبھرے گی اور دوبارہ اقتدار حاصل کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ آیا انھوں نے ملک کے رائے دہندوں کو اپنے اشاروں پر کام کرنے والے عوام سمجھ لیا ہے جو بی جے پی کی ہر خرابی کے باوجود ووٹ دینے کی احمقانہ حرکت کریں گے۔ کامیابی کے لئے کسی بھی پارٹی کو عوام کا خط اعتماد حاصل کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بی جے پی نے 2014 ء کے عام انتخابات میں عوام کو گمراہ کرکے ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کا اب اعادہ ہونا مشکل ہے۔ عوام سمجھ رہے ہیں کہ یہ حکومت صرف وعدوں اور دعوؤں کے ذریعہ عوام کو رجھانے میں ماہر ہے۔ یہ حربے اس مرتبہ لوک سبھا انتخابات میں کام نہیں آئیں گے۔ قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے والی پارٹیوں کو عوام نے سبق سکھایا ہے۔ بی جے پی کا خیال یہ ہے کہ بوفورس اسکام کے بعد کانگریس کو ناکامی ہوئی تھی۔ اب رافیل اسکام سے بی جے پی کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اگر ہندوستانی عوام قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے والی پارٹیوں کو سبق سکھانے کا عہد کرچکے ہیں تو ان کا یہ عہد اور حوصلہ عام انتخابات کے نتائج سے واضح ہوجائے گا۔ چیف منسٹر پنجاب امریندر سنگھ نے مرکز کی بی جے پی حکومت اور اس کی قیادت کو ہندوستان کی تاریخ کا بدترین باب قرار دیا ہے۔ جملہ باز وزیراعظم نے ملک کے حق میں کوئی مثبت رول ادا نہیں کیا۔ ان قائدین کے بیانات کا عام انتخابات کے نتائج پر اثر ہوتا ہے تو یہ مثبت تبدیلی کہلائے گی۔
مذہب کے نام پر نفرت کی دیوار
ہندوستان کو مذہب کے نام پر انتشار پسندی کے ماحول میں لے جانے والی سیاسی قوتوں نے اب کیرالا میں سبری ملا مسئلہ کا استحصال کرنا شروع کیا ہے۔ سی پی آئی ایم نے کیرالا کی صورتحال کو ابتر بنانے کے پیچھے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو تیزی سے عمل میں لاتے ہوئے مرکزی حکومت نے ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو تباہ کردیا ہے۔ ملک میں مذہب کے نام پر نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کا راست سیاسی فائدہ ایک ہی پارٹی کو ہوگا۔ ہندوستان کی سیکولر فضاء کو فرقہ پرستانہ سازشوں سے مکدر کرتے ہوئے فرقہ پرستوں نے اب تک جتنے بھی خونی کھیل انجام دیئے ہیں اس سے ہندوستان کی شبیہ متاثر ہوئی ہے۔ اب سبری ملا کا مسئلہ اُچھالا جارہا ہے۔ مندر میں کم عمر خواتین کے داخلے پر پابندی کو برخاست کرنے کے ایک عدالتی فیصلہ کے بعد یہاں یاتریوں اور بھکتوں کے نام پر ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔ کیرالا میں جاری تشدد کے واقعات اور اس میں ملوث افراد کے ساتھ پولیس کا نرم رویہ اور کشمیر میں تشدد کے واقعات اور سنگباری کرنے والے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ پولیس اور فوج کے رویہ کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے انگریزی اخبار ٹیلی گراف نے جرأتمندانہ سرخی لگاکر صحافت کا حق ادا کیا ہے۔ یہ سوال تلخ ہے کہ پولیس کیرالا میں سنگباری کرنے والوں کو بھکت مانتی ہے اور کشمیر میں سنگباری کرنے والوں پر گولیاں برساتی ہے۔ یہ امتیاز اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ملک کا ذمہ دار طبقہ اور حکمراں طاقتیں ہندوستان کو نفرت کی آگ میں جھونک کر اپنے سیاسی مفادات حاصل کررہی ہیں جو ہندوستانیوں کے مستقبل کے لئے خطرناک ہے۔ ایسی طاقتوں کو حاصل اختیارات چھین لینا وقت کا تقاضہ ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب سیکولر ہندوستان کا ہر سیکولر شہری اپنے فرائض کو محسوس کرتے ہوئے ملک کے مفاد میں آگے آئے اور ان فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرکے قومی سیکولر تانے بانے کو مضبوط کرے۔