راہول گاندھی کے استعفیٰ سے کیا فرق پڑے گا …!!

   

غضنفر علی خان
گزشتہ ہفتہ بالآخر صدر کانگریس راہول گاندھی نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ پیش کردیا ، حالانکہ یہ اقدام اس شرمناک شکست کا نہ تو واحد سبب ہے اور نہ اس سے کچھ حاصل ہوگا۔ 2019 ء کے انتخابات دراصل اور مختلف نظریات کے درمیان ٹکراؤ تھا ، کیسے ملک کے سیکولر رائے دہندوں کا ذہن بی جے پی کے لئے ایک سر سبز و شاداب کھیتی میں بدل گیا حالانکہ ملک کی تقسیم اور ہماری آزادی کے بعد سے بے شک ملک کے رائے دہندے سیکولر خطوط پر ووٹ دیا کرتے تھے، اچانک پچھلے چند برسوں سے فرقہ پرست طاقتیں اور بی جے پی نے رفتہ رفتہ غلبہ حاصل کیا لیکن اپنی کامیابی کے نشہ میں کانگریس پارٹی نے فرقہ پرستی کی اس ترقی کو نہیں سمجھا ، وہ اس غلط فہمی کی شکار تھی کہ کانگریس پارٹی ناقابل شکست ہے جبکہ دوسری جانب آر ایس ایس اور بی جے پی مسلسل اپنے فرقہ پرستی کے نظریہ کو ملک کے سیکولر مزاج میں ایک زہر کی طرح گھلتی رہی اور بالآخر 1914 ء میں یہ آثار نمایاں ہونے لگے کہ فرقہ پرستی کا یہ زہر ساری ہندوستانی قوم کے رگ و ریشہ میں دوڑا دیا ہے ۔ اس فرقہ پرستی کے ماحول کو گرم کرنے میں بابری مسجد کی شہادت (6 ڈسمبر 1992 ء) نے گویا آگ پر تیل چھڑکا اور اس مقصد کے لئے نکالی گئی رتھ یاترا نے رہی سہی کسر بھی ختم کردی اور ملک میں ایک نیا رجحان بڑھنے لگا، اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بابری مسجد کی شہادت کانگریس کے لیڈر پی وی نرسمہا راؤ کی غفلت سے ہوئی اور اس وقت ملک کے ایک ایسی حکومت کے سربراہ تھے اور ملک کے وزیراعظم تھے جو ایک اقلیتی حکومت تھی لیکن اگر اکثریتی حکومت ہوتی تب بھی ان کے (نرسمہا راؤ) مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو بابری مسجد کی شہادت کے لئے بنائی گئی مخصوص ذہنیت کا ساتھ دیتے ۔ بابری مسجد کی شہادت میں ملک کے اجتماعی ذہن کو فرقہ پرستی کا پہلا واقعہ سمجھا جائے تو یہ کوئی غلط بات نہ ہوتی اور یہیں سے ہندوستانی مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ چھوڑنا شروع کردیا جو کانگریس کے لئے انتہائی نقصان دہ بن گیا ۔ کوئی پارٹی ہمارے ملک میں کسی ایک طبقہ ہندو یا مسلمان کے ووٹوں سے انتخاب نہیں جیت سکتی ، اگرچہ کہ مسلمانوں کا ووٹنگ فیصد کم ہے لیکن ان کی حیثیت ان معنوں میں ہمیشہ اہم رہی کہ وہ جس سیاسی پارٹی کی طرف نظر التفات کرتے وہ کامیابی حاصل کرلیتی۔ کانگریس کو 1980 ء سے ہی کم تر ووٹ ملنے لگے لیکن 1990 ء کے عرصہ میں فرقہ پرست طاقتوں اور کانگریس میں آر بار کی لڑائی ہونے لگی اور ہر عام انتخابات کے بعد کانگریس کے مجموعی ووٹوں کا فیصد کم ہوتا گیا ۔ آخر کار 2014 ء میں بی جے پی نے کانگریس کو شکست دے کر اقتدار حاصل کرلیا، اس کے بعد 2019 ء میں جو حالیہ عام انتخابات ہوئے اس میں تو کانگریس کا برا انجام و صفایا کردیا گیا۔ کانگریس پارٹی نے اپنی اس متواتر شکست و ریخ کے اسباب کو کھولنے کی کوئی کوشش نہ کی اور نہ فرقہ پرستی کے زہر کا تریاق معلوم کیا ، اس پس منظر میں اسی سال راہول گاندھی کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا اور انہوں نے پارٹی کی کمان سنبھال لی ، بہت سارے تجزیہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ راہول گاندھی اور پارٹی کی نئی جنرل سکریٹری یعنی ان کی بہن پرینکا گاندھی کانگریس کے اثر و رسوخ کو بڑھائیں گے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور ہندو ووٹ بینک بڑی حد تک بی جے پی کا حمایتی بن گیا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم ووٹ بینک میں کانگریس کا حصہ کم ہوگیا اور دوسری بات یہ کہ ہندو ووٹ بینک کا بڑا حصہ بی جے پی کے حق میں ہوگیا ، دو مختلف نظریات کی اس لڑائی میں بدقسمتی کی بات یہ کہ فرقہ پرست طاقتوں نے کامیابی حاصل کرلی۔ کانگریس اپنے سیکولر نظریہ کے باوجود بری طرح دو عام انتخابات میں سکڑتی چلی گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ کی تین چوتھائی نشستیں حاصل کرنے والی یہ کانگریس پارٹی عددی اعتبار سے اتنی سکڑتی چلی گئی کہ اس کا وجود ایوان میں محض علامتی بن کر رہ گیا ۔ اب اس ماحول میں جس سے راہول گاندھی پوری طرح واقف نہیں تھے، فرقہ پرستی کا مقابلہ نہ کرسکے اور اخلاقی اعتبار سے پارٹی کی اس شکست کو اپنی غلطی مانتے ہوئے یا شکست کے لئے خود کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہوگئے جو اصل مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ یہ فیصلہ کہ ان کے بعد پارٹی کی قیادت کے لئے کس کو صدر کی ذ مہ داری سونپی جائے ، یہ کانگریس کا داخلی مسئلہ ہے لیکن عام طور پر سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ راہول گاندھی ہی کانگریس کی صدارت کے لئے موزوں ترین امیدوار ہیں ۔ بی جے پی کا یہ اعتراض کہ کانگریس پارٹی پر نہرو گاندھی خاندان کی اجارہ داری ہے ، انتہائی لغو اور بے معنی بات ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس خاندان نے ملک کو تین وزیراعظم دیئے ۔ راہول گاندھی کے نانا پنڈت جواہر لعل نہرو پہلے وزیراعظم رہے ، ان کے بعد صاحبزادی اندرا گاندھی اور بعد میں ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ یہی نہیں بلکہ آزادی کے بعد نئے ہندوستان کے معمار کی حیثیت سے پنڈت نہرو نے معاشی ، سیاسی ، صنعتی پالیسیوں کا جو ڈھانچہ بنایا اسی پر آج تک ملک کی حکومتیں عمل پیرا ہیں۔ نہرو۔ گاندھی خاندان کی نگہداشت میں آزاد ہندوستان آگے بڑھتا رہا اور آج اگر دنیا کے چھٹی بڑی طاقت ہندوستان ہے تو یہ اسی خاندان کی بیش بہا خدمات کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی لیڈرس اور وزیراعظم اب جو باتیں کر رہے ہیں کہ وہ ملک کو ایک مودی نیا بھارت بنائیں گے ، اس کی بنیاد تو اسی نہر و خاندان نے رکھی تھی جس پر وزیراعظم اور بی جے پی مسلسل غیر ضروری تنقیدیں کر رہے ہیں ۔ آج نئے ہندوستان بنانے کی بات تو 50 برس پہلے پنڈت نہرو نے کہی تھی اور وہ نئے ہندوستان کے معمار کی حیثیت سے عصری تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ مودی کا دعویٰ غلط بھی ہے اور جھوٹا بھی ہے کہ وہ نیا بھارت بنانے کیلئے کوشاں ہیں ۔ اس نئے بھارت کی تو 70 سال قبل پنڈت جی نے شروعات کی تھی اس لئے نہرو گاندھی خاندان کا پارٹی پر گہرا اثر ہے ۔ یہ کوئی خاندانی حکومت نہیں ہے اور نہ کانگریس پارٹی کو کسی خاندان کا مرہون منت سمجھا جاسکتا ہے ۔ اگر اس بدحالی میں کانگریس کی قیادت بدستور راہول گاندھی کرتے ہیں تو یقیناً کانگریس پہلے کا سا ماحول سارے ملک میں بناسکتی ہے اور سیکولرازم کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ آج کانگریس اور دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جو ہندوستان کی آواز بن سکتا ہو۔ راہول گاندھی اپنے اس سیاسی سمندر کے تحت 134 سالہ کانگریس کی قیدات کرنے کے اہل ہیں کیونکہ پارٹی میں کوئی دوسرا ان کے ہم پلہ لیڈر موجود ہی نہیں ہے۔ البتہ کانگریس پارٹی کو اس نئے سیکولر محاذ میں ملک کی دیگر تمام سیکولر پارٹیوں کو قبول کرنا پڑے گا ۔ جنگ آزادی میں کانگریس تنہا حصہ لیتی رہی اور آج جو سیاسی پارٹیاں ہیں، ان کا تو جدوجہد آزادی میں کوئی حصہ نہیں رہا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انگریزوں کی طاقت کے آگے ہمیشہ سر جھکائے رہتے تھے اس لئے اس نئے بھارت اور اس کے معمار پنڈت جی کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے مخالف کانگریس پارٹیوں کو ایک ناقابل شکست محاذ بنانا ہوگا ، نہ تو اکیلے کانگریس اپنے سیکولرازم کا پرچم لہراسکتی ہے اور نہ ملک کی دیگر سیکولر پارٹیاں کانگریس کی شمولیت کے بغیر بی جے پی کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ ملک کا مستقبل ایک دوراہے پر کھڑا ہے کہ آیا ملک سیکولررہے گا یا نہیں ؟