ڈاکٹر حافظ محمد انوار اللہ تمیم نقشبندی
آج ساری دنیا تعمیر انسانیت اور حقوق انسانی کی بات کرتی ہے۔ اقوام متحدہ عالمی سطح پر حقوق انسانی پر عمل کروانے سے قاصر ہے ہر مملکت تعمیر انسانیت کا منشور تو بناتا ہے مگر عمل ندارد، خود ملت اسلامیہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر کما حقہ عمل پیرا نہیں۔ دین حیات بخش بھی ہے اور حیات پذیر بھی، جو قوم دین پر عمل پیرا رہے وہ ایک زندہ قوم ہوجاتی ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رحمۃ للعالمینؐ کی سیرت اور سنت سے روح حیات پائی اور ایک ایسی عظیم طاقتور باخلاق قوم بن کر اپنے زرین کارناموں سے اقوام عالم کی آنکھیں خیرہ کردیں، تعلیمات نبویؐ کو مان کر اور اس پر عمل کرکے یہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو منزل مقصود تک پہنچایا جاسکتا ہے۔عصر حاضر کے اس پر فتن و پر آشوب دور میں نوجوانانِ ملت کے فکری و عملی دھاروں کو صحیح خطوط پر لانے کے لئے اخلاق مصطفوی و تعلیمات نبوی ﷺ کو اُن کی زندگی میں اُجاگر کرنا ضروری ہے۔ تاکہ پھر سے عالم میں نبی کریم ﷺکی تعلیمات عام ہوں۔رسول کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تو تعمیر انسانیت ممکن ہے۔
تعمیر انسانیت جو ساری دنیا کا ایک اہم ترین مضمون ہے جس پر سب سے پہلے عمل محسن انسانیت پیغمبر خدا خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ مکمل معاشرہ میں اس پر عمل کروایا۔قارئین آج اقوام متحدہ عالمی منشور انسانی حقوق کو ادا کرنے اور اس پر عمل کروانے سے قاصر رہا۔اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس مضمون پر عمل کب سے ہوا تو تاریخ بتاتی ہے قبل رسالت یا یوں کہوں قبل ولادت محمدؐ یہ مضمون کا آغاز نہ ہوا تھا بلکہ ولادت سے قبل کا معاشرہ اور ولادت کے بعد کا معاشرہ اپنے اندر بہت تبدیلی رکھتا ہے۔ پیغمبر خدا نے اس کی بنیاد ڈالی اوراس کو سارے عالم میں اپنے خطابات و احکامات و معاملات اورتربیت کے ذریعہ نافذ العمل بنایا۔پیغمبر خدا کی تعلیمات اور خود اُن پر آپ کے عمل مبارک سے یہی پتہ چلتا ہے کہ کوئی مسئلہ یا کوئی نظریہ اسی صورت میں مستحکم ہوتا ہے جب اجتماعی اور انفرادی زندگی میں ہر شخص و ادارے یکساں طور پر قابل عمل ہو۔سب مل کر معاشرہ بناتے ہیں ہم سے معاشرہ ہے نہ کہ معاشرہ سے ہم ۔موجودہ اس پرفتن دور میں انسانی حقوق کا (Human Rights) ساری دنیا میں چرچا عام ہے مختلف طریقوں سے کام ہو رہا ہے ادارے قائم ہیں۔ لیکن بے سود کیوں کہ آج معاشرہ تعلیمات محمدیؐ پر عمل پیرا نہیں۔نبی آخر الزماںؐ کے احکامات اور آپؐ کی تعلیمات سے کم واقفیت یا عدم علم کی بناء ہم دوسرے اقوام سے مرعوب رہتے ہیں غور فرمائیں کہ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا ہے۔اس کی بیشتر دفعات اور خود (Universal Declaration of human Rights) خطبہ حجۃ الوداع کا چربہ ہے جو ہمیں محسن انسانیت پیغمبر خدا ﷺ نے چودہ سوسال پہلے عطا فرمایا ، یاد رکھیئے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ بنی نوع انسان کو انسانیت اور انسانی حقوق کا منشور اعظم’’The great manifestoخطبہء حجۃالوداع‘‘ عطا فرما کر حقوق و فرائض کی مثالی تعلیمات سے روشناس فرمایا۔ سب سمجھتے ہیں کہ یہ Human Rights ۔ یا اقوام متحدہ یہ ادارے سارے عالم میں امن کو قائم کیا معاشرہ تبدیل کیا حالانکہ یہ ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی ۱۹۹۸ء میں اس کے تاسیس کے پچاس برس منائے گئے ،جبکہ پیغمبر خدا نے ۱۴۴۵ سال قبل کئی ایسے کام انجام دیے ہیں جس کی بناء دنیا میں اس کا نظام قائم کیا گیا جس میں سے آج ہم اختصار کے ساتھ ۴ ، اہم کارناموںکو ذکر کریں گے ۔
(۱)معاہدہ حلف الفضول ۔(۲)میثاق مدینہ۔(۳) خطبہ فتح مکہ ۔(۴)خطبئہ حجۃ الوداع ۔
(۱)معاہدہ حلف الفضول (۵۸۶ء) مظلوموں کی مدد کا پہلا تاریخی منشوراور پیغمبر اسلام کا کردار:ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب رسول اکرم ﷺکی سیاسی زندگی میں نقل کرتے ہیں کہ معاہدہ حلف الفصول ذو القعد ہ قبل ہجری / ۵۸۶ ء سرزمین عرب بالخصوص مکہ کی ریاست میں عرب تاریخ میں پہلی مرتبہ قیام امن، بنیادی انسانی حقوق، بالخصوص مظلوموں اور بے کسوں کی دادرسی کا پہلا تاریخ ساز معاہدہ ہے جس میں شریک ہونے والے رضا کار متحدہ طور سے اپنے شہر مکہ میں ظالموں کا ہاتھ روکتے اور مظلوموں کو ان کاحق دلاتے ۔عمرفروغ تاریخ الجاھلیۃ میں نقل کرتے ہیں کہ بنو زبیدہ قبیلہ کا ایک شخص مکہ میں بغرض تجارت کچھ مال لایا جس کو عاص بن وائل نے خرید لیا لیکن اس کی قیمت ادا نہ کی وہ دادرسی کی غرض سے مدعی بن کر قبائل قریش میں فریاد لے کر گیا مگر عاص بن وائل کی وجاہت سے اس کی فریاد رسی کی کسی میں ہمت نہ ہوتی تھی اس بے بسی کے نتیجہ میں معاہدہ حلف الفضول عمل میں آیا۔چنانچہ انسانیت کے محسن اعظم کی تحریک اور کوششوں کے نتیجے میں بنو ہاشم ، بنو عبد المطلب اور خاندان زہرہ نے متحد ہو کر معاہدہ کیا کہ چاہے مکہ کے باشندے ہوں یا اجنبی آزاد ہو یا غلام، مکہ کی حدود کے اندر ہر طرح کے ظلم اور نا انصافی سے محفوظ رکھا جائے گا اور ظالموں کے ہاتھوں ان کے نقصانات کی پوری پوری تلافی کرائی جائے گی۔ آپ ﷺ اس انجمن کے رکن اعلیٰ تھے اس کی بدولت کمزوروں مظلوموں کو بڑی حد تک امن وامان نصیب ہوگیا ۔ …جاری ہے
ڈاکٹرمحمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی میں نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمانہ قبل ازاسلام اس میں مؤثر طور پر عملی حصہ لیتے رہے ۔طبقات ابن سعد اور عمر فروخ نقل کرتے ہیںکہ محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک اور کوششوں کے نتیجے میں بنو باشم، بنو عبدالمطلب، بنوا سد بن عبد العزی، بنو زہرہ بن کلاب اور بنو تیم بن مرہ عبداللہ بن جدعان جو اپنی قوم کے سردار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جمع ہوئے اور معاہدہ حلف الفضول طئے پایا۔
اس جماعت کامقصد جو ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی میں نقل کرتے ہیں کہ مقصد شہر میں ہر مظلوم کی خواہ شہری ہو یا کہ اجنبی مدد کرنا اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنا تھا جب تک ظالم حق رسائی نہ کرے ۔
محسن انسانیت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی سرخ اونٹ بھی دئے جاتے تو میں نہ بدلتا انسانی تاریخ کے ”بنیادی انسانی حقوق ‘‘کے تحفظ کے لئے منعقدہ اس تاریخ ساز غیر تحریری معاہدہ کے دیگر ممبران و شرکاء نے ،قیام امن، انسانی حقوق کے تحفظ اور بقائے باہمی کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل امور کی انجام دہی لازمی قراد یا اس کی اہم دفعات یہاں ذکر کئے جاتے ہیں
مکہ سے بدامنی دور کی جائے گی، مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا ،مظلوموں کی امداد کی جائے گی، خواہ مکہ کے باشندے ہوں یا اجنبی،
زبردست کو زیر دست پر ظلم و زیادتی سے روکا جائے گا۔
انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اس حیثیت سے انسانی حقوق کے تحفظ ،اس کے احیاء اور عملی نفاذ کے سلسلہ کا اولین معمار قرار دیا جا سکتا ہے اور یہیں سے انسانیت کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک انسانی حقوق کا آغاز ہوتا ہے
(۲)میثاق مدینہ( ۶۲۳ء ) ریاستی حقوق کی پہلی تحریری اور تاریخی دستاویز
نبوت کا تاج زرین پہننے کے بعد محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو انسانیت اور انسانی حقوق کے حوالہ سے انتہائی اہم اور تاریخی کردار کی حامل ہیں ان میں بطور خاص میثاق مدینہ ،خطبہ ء فتح مکہ اور خطبہ حجۃ الوداع انسانی حقوق کی وہ دستاویز ہیں جن میں انسانی حقوق کا انتہائی جامع مثالی اور دائمی نظریہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظات کیے ہے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انتہائی واضح غیر مبھم حتمی یقینی اور موثر تعلیمات جاری فرما کر انہیں نافذ العمل بنا کر اسلامی مملکت کے دستوراور ضابطہء حیات کا جزء لاینفک قرار دیا ۔
میثاق مدینہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبیر کا مثالی شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ رواداری، امن و سلامتی، آزادی اور عدل و انصاف کے ہر جوہر سے مزین ہے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ انسانی معاشرہ میں قائم فرمایا جس سے، ہر گروہ ہر فرد کو اپنے عقیدہ و مذہب کے فلسفہ ،عدل و انصاف کی بناء پر آزادی اور حصول انصاف کا حق حاصل ہوا۔
انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، یہ تاریخ ساز دستاویز اور اس کی دفعات اپنی حقیقت پسندی پر آپ گواہ ہے۔ امن وسلامتی ، قربت اور عدل وانصاف کا ہرجوہر اس میں موجود ہے ۔دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ میثاق مدینہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور ہے۔
موصوف نے اس تاریخی حقیقت کو ثابت کرنے کیلئے انگریزی میں ایک کتاب The first written constitution in the worldکے نام سے لکھی جو ۱۹۷۵ ء میں لاہورے شائع ہوئی۔اور خطبات بھاول پور (بھاولپور) میں ڈاکٹرمحمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جملہ دستاویز – میثاق مدینہ میں ۵۳؍دفعات ہیں پہلی ۲۳؍دفعات انصار و مہاجرین کے متعلق بقیہ حصہ یہودی قبائل کے حقوق وفرائض سے بحث کرتے ہیں ان دونوں میں ایک جملہ دہرایا گیا ہے کہ آخری عدالت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہوگی ۔
آئینی حقوق سے متعلق عدالتی فقرات ذکر کرد ہ یا کچھ فقرات یا حقوق جو کہ ڈاکٹرمحمد حمید اللہ رحمۃاللہ علیہ نے اپنی کتاب عہد نبوی میں نظام حکمرانی میں ذکر کیا ہے فرماتے ہیں کہ ہر قبیلہ انصار اپنے افراد کے مالی مواخذہ جات کا اجتماعی طور سے ذمہ دار ہوگا ۔اگر کوئی فرددشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو تو اس قیدی کے قبیلہ کے سب افراد مل کر فدیہ ادا کریں گے ۔مھاجرین مکہ سب مل کر ایک قبیلہ تصور کئے جائیں گے۔ انصاف رسانی ،عدل و انصاف پوری جماعت مسلمانان کا فریضہ سمجھا جائے گا۔
کسی رشتہ داری اور قرابت کا پاس و لحاظ نہیں کیا جائے گا ۔کسی قاتل یا مجرم کو کوئی شخص پناہ نہیں دے سکے گا ۔ کسی مسلمان کا قتل عمد،سزائے موت کا مستوجب ہوگا ۔ یہودیوں سے متعلق جو دفعات ہیں فدیہ ،دیت ،ولا اور جوار کے ادارے حسب سابق برقرار رہیں گے۔ کوئی شخص قریش اور ان کے مدد گاروں کو اپنی پناہ میں لینے کا مجاز نہ ہوگا ۔
میثاق مدینہ ریاستی انسانی حقوق کی اہم دستاویز ہے (Civil Rights)
معروف محقق ڈاکٹرمحمد حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی میں نقل کرتے ہیں کہ میثاق مدینہ ریاستی انسانی حقوق کی اہم دستاویز ہے جس میں بقول ڈاکٹر محمدحمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ۵۲؍باون جملے یا قانونی الفاظ میں دفعات شامل ہیں اس کی اہمیت اسلامی مؤرخوں سے زیادہ یورپی عیسائیو نے محسوس کی Julius wellhausen ۔جوزف میولر ۔ گری ملر ۔Sprenger ۔و غیرہ کے علاوہ ایک جرمن مؤرخ Ranke نے مختصر تاریخ عالم لکھتے ہوئے بھی اس دستاویز کا ذکر کرنا ضروری خیال کیا ہے ۔
میثاق مدینہ میں، انسانی حقوق کے حوالہ سے اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔ کہ اس اس دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں امن، سلامتی ،آزادی، انصاف و مساوات، اور حکمراںو رعایا کے حقوق و فرائض کا ہر جو ہر اس میں موجود ہے۔
(۳)خطبہء فتح مکہ (۶۳۰ء) ۸ھ
بنیادی انسانی حقوق کا پہلا منشور (First declaration of fundamental human rights)
انسانیت کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مطہرہ کی قولی اور عملی تعلیمات میں انسانیت کے تحفظ اور انسانی حقوق کے حوالہ سے خطبہ ء فتح مکہ ۸ھ ۶۳۰ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔فتح مکہ کا واقعہ اسلامی حکومت کی تاسیس، امن، آزادی رواداری، عدل و انصاف اور انسانی مساوات کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس دور پیغمبر خدا،محسن انسانیت ،خاتم النین ،محمد مصطفی کعبۃ اللہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر بنیادی انسانی حقوق human rights fundamental سے متعلق تین تاریخ ساز اعلان کئے جن کو ۱۲۲۲؍برس بعد یورپی دنیا کے ملک فرانس کے یوم انقلاب کے موقع پر منایا گیا۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا اورتین اعلان کئے :
اعلان امن، اعلان آزادی، اعلان مساوات انسانی عفو و در گزر کی عظیم مثال۔
۲۳؍سال میں مختلف تکالیف کے بعداس دوران کئی صحابہ شہید ہوئے ،صحابیات شہید ہوئیں،گرمی کی تکالیف برداشت کیں۔ ۳؍سال شہر بدررہے یہ سب کے بعد جب فتح مکہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کفار کے سامنے آئے تو ان سے کہاتم کیا کہتے ہو میںکیا کرونگا تو وہ بولے کہ آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہے کہ تم سب آزاد ہو انہیں معاف فرمایا۔
(۴)خطبہ حجۃ الوداع( ۶۳۲ء) ۱۰ھ
انسانی حقوق کا عالمی اور دائمی منشور :۔ انسانی تاریخ میں حقوق انسانی کی تحریک کے آغاز وارتقاء کا سحراانسانیت کے محسن اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر ہیں ،خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی حقوق کے حوالہ سے انتہائی اہم عملی اور موثر کردار، خطبہ حجۃ الوداع ہے جو ۱۰؍ھ ۶۳۲ ء میں نظر آتا ہے۔
یہ انسانی تاریخ میں صلاح و فلاح، حقوق انسانی کی جدوجہد میں آغاز وارتقاء کے حوالہ سے تمام انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی منشوروں اور دستاویزات حقوق پر دائمی فوقیت اور تاریخی اولیت رکھتا ہے۔
یورپ کے مؤرخ (Lord Action) نے فرانس کے منشور انسانی حقوق Declaration of the Rights of man کے متعلق کہا تھا کہ کا غذا کا یہ پرزہ دنیا کے کتب خانوں سے زیادہ وزنی اور نپولین کے قشون قاہرہ سے زیادہ پر شکوہ ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع حقوق انسانی کا اولین اور ابدی منشور ہے جو نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار یہ حقوق انسانی کے اولین علمبردار کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا جس پر انسانیت جتنافخر کرے کم ہے جتنا ناز کرے بجا ہے اس تاریخ ساز خطبہ کی عظمت، جلالت شان اور تاریخی اہمیت کے باعث اس کو حجۃ الاسلام ،حجۃ التمام کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
خطبۃ جمعۃ الوداع میں فراہم کردہ حقوق چند ذکر ہیں
(1) – جان، مال، عزت وآبرو، اور اولاد کے تحفظ کا حق
(2) امانت کی ادائیگی، قرض کی وصولیابی۔ اور جائیداد کے تحفظ کا حق
(3) سود کے خاتمہ کا تاریخی اعلان، انسانیت پر احسان عظیم
(4) پر امن زندگی، اور بقائے باہمی کا حق
(5) ملکیت عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق
(4) انسانی جان کے تحفظ قصاص و دیت میں مساوات کا قانونی حق
(7) انسانی مساوات کا حق – انسانی تفاخر و طبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا تاریخی اعلان
(8) عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان
(9) غلاموں کے حقوق کا انقلابی اور عملی اعلان
(1) عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات کا حق
(11) انسانیت کے منشور اعظم ” خطبہ حجۃ الوداع کے تحفظ اور اس کے نافذ العمل بنانے کا اعلان ۔
یہ تاریخ ساز خطبہ اقوام متحدہ کے منشور انسانی حقوق کا تقابلی جائزہ کیا گیا ہے۔ اس پر بہت کام ہواہے ہم اس پر اختصار کرتے ہیں۔
بخاری شریف حدیث ۶۵۳۳؍حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھماسے روایت ہے انھوں نے کہا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ لوگوں کے درمیان ہوگا وہ ناحق خون کے متعلق ہوگا (اول ما بقضی بین الناس بالدماء) ۔
بخاری شریف حدیث ۲۳۶۵؍۳۴۸۲؍حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ایک عورت کو عذاب ایک بلی کی وجہ سے ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مرگئی اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔
بخاری شریف حدیث ۷۰۹؍(کتاب الاذان )حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نماز کے آغاز کے وقت اسے طویل دینے کا ارادہ کرتا ہوں لیکن بچے کا رونا سن کر اسے مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ بچے کے رونے سے اس کی ماںکو پریشانی اور تشویش لاحق ہوگی۔
بخاری شریف حدیث ۱۳۹۳(کتاب الجنائز) حضرت ام المؤمنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مردوں کو بُرا نہ کہو کیونکہ انھوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔
بخاری شریف حدیث نمبر ۳۰۱۵؍مسلم ۱۷۴۴؍حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنھماسے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ کے زمانہ میں کسی غزوہ میں قتل ہوئی وہ مقتول پائی گئی تو نبی کریم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ’’ فنھی رسول اللہ عن قتل النساء والصبیان ‘‘۔
بخاری شریف حدیث نمبر ۳۱۶۶؍حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی عہد والے کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے ’’ من قتل معاہدا لم یرح رائحۃ الجنۃ وإن ریحھا تُوجد من مسیرۃ اربعین عاما ‘‘۔
بخاری شریف حدیث نمبر ۶۸۹۱؍حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا، کسی کی ناحق جان لینا ،والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا یا فرمایا ” جھوٹی گواہی دینا ہیں”۔ اکبر الکبائر الإشراک باللہ وقتل النفس وعقوق الوالدین وقول الزور او قال شہادہ الزور
صحیح مسلم ،حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک گدھا گزرا جس کے منہ پر داغا گیا تھا آپ نے فرمایا جس نے اسے (منہ پر) داغا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو، سسن ابو داود 2675حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا وہ چڑیاآکر زمین پر پھڑپھڑانے لگی اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آگئے اور فرمایا کسی نے اس کو اس کے بچے لے کر بے قرار کیا واپس کرو۔
یہ محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد ڈالی انسانوں کو ایک ہوکر ایک دوسرے کا خیال کرکے زندگی گزارنا سکھایا ،اخلاق ،بھائی چارگی کو سکھایا ۔قربانی دینا اور ایک دوسرے کا حق ادا کرنا سکھایا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ تمام انسانوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔اللہ تبارک وتعالی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت طیبہ کو پڑھنے اور اپنانے کی توفیق عطا فرما۔ آمین