رمضان کا سبق/ از قلم: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

,

   

رمضان المبارک اپنی تمام رعنائیوں اور بہاروں کے ساتھ گذرنے کو ہے ، آئیے !پھر ایک بار ہم رمضان کا سبق تازہ کریں ، ماہ مبارک سے ہمیں کیا کیا سبق ملتا ہے ؟ اس ماہ کے تقاضے کیا تھے ؟ اور ہماری زندگی میں ان کا کیا اثر ہونا چاہئے ؟ آئیے ہم اپنا احتساب کریں اور اپنی عملی زندگی کو اس آئینہ میں دیکھ کر اسے سنوارنے کی کوشش کریں ۔
رمضان ہمیں مجاہدہ کی تربیت دیتا ہے ، مجاہدہ سے مراد مشقتوں اور خلاف طبیعت باتوں کو برداشت کرنا ہے ، بھوک ، پیاس ، دوسری خواہشات سے اجتناب ، زبان کی حفاظت ، رات میں عام معمول سے زیادہ تراویح کی بیس رکعتوں کی ادائیگی ، وہ بھی طویل قیام و قراء ت کے ساتھ ، دن بھر کی فاقہ مستی کے بعد کھانا ، کھانے کے بعد نماز ، نماز کے بعد کچھ دیر سو کر پھر اُٹھ جانا، اللہ توفیق دے تو چند رکعات تہجد ورنہ کم سے کم سحری ، موقع بہ موقع قرآن مجید کی تلاوت ، یہ معمولات کا ایسا سلسلہ ہے جو یقیناً انسان کو تھکا دینے والا اور اس کے عام مزاج و مذاق کے خلاف ہے ، اس سے ہماری تربیت ہوتی ہے ، کہ ہم اپنے اندر خلاف طبیعت باتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں ، ہم بلند مقاصد کے لئے آبلہ پائی کرسکیں ، طوفان ہمارے حوصلے پست نہ کرے ، آندھیاں ہمارے قدموں کو کم ہمت نہ بنادیں ، نامساعد حالات ہمارے لئے زنجیر پا نہ بن جائیں ؛ بلکہ اگر ہمارے سفر کی سمت صحیح ہو تو ہم اس کے لئے ہر طرح کی مشکلات اور ابتلاؤں کو سہنے کے لئے تیار ہوں ، یہ حوصلہ مندی اور آبلہ پائی ہماری شخصی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے اور قومی زندگی کے لئے بھی ، افراد و اشخاص کے لئے بھی ضروری ہے اور جماعتوں اور تنظیموں کے لئے بھی ، کامیابی کسی مادی مقصد کو حاصل کر لینے کا نام نہیں ؛ بلکہ خدا کی خوشنودی کی راہ پر چلنے کا نام ہے ، اس راہ میں کھونا بھی پانا اور اس راہ میں مرنا بھی جینا ہے ۔
رمضان المبارک ہمیں قرآن مجید سے وابستگی کا سبق دیتا ہے ، اس ماہ میں قرآن نازل ہوا ، تراویح نزول قرآن ہی کی یاد گار ہے ، شب قدر اور اعتکاف کا مقصد بھی نزول قرآن کی مبارک شب کو پانا ہے ، عید الفطر اسی نزول قرآن کا جشن عام ہے ، پس یہ مہینہ قدم قدم پر ہمیں قرآن مجید سے مربوط کرتا ہے ، قرآن محض ایصال ثواب اور مردوں کے لئے بخشش و مغفرت کی کتاب نہیں ؛ بلکہ یہ آئینہ حیات ہے ، جس میں ہم اپنی عملی زندگی کی صورت گری کریں اوراس کے خد و خال درست کریں ، ہم اپنا جائزہ لیں کہ قرآن سے ہمارا تعلق کس قدر کمزور ہو چکا ہے ، ہم تلاوتِ قرآن کے ذوق سے محروم ، قرآن ہم سے کیا کہتا ہے اور کیا چاہتا ہے ، اس کے جاننے کی خواہش سے عاری ، عملی زندگی میں قرآن کی پیروی کرنے کے بجائے ، ہماری خواہشات اور مفادات ہماری رہبر ہیں ، قرآن پوری انسانیت کے لئے امانت خداوندی ہے ، اس کا حق تھا کہ ایک ایک بندۂ خدا تک اس کتاب کو پہنچایا جاتا ؛ لیکن ہم نے صدیوں اس ملک میں رہنے کے باوجود اپنے برادرانِ وطن تک ان کی اس امانت کو پہنچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیںکی ، غرض کہ ہم گو حاملانِ قرآن ہیں ؛ لیکن نہ قاریِ قرآن او رنہ عامل قرآن ، نہ عالم قرآن اور نہ مبلغ قرآن ، اس سے بڑھ کر اس کتاب کے ساتھ کیا نا انصافی ہوگی !
ہمیں چاہئے کہ ہم یہ عہد کریں کہ خود قرآن مجید کی تلاوت کا معمول رکھیں گے ، اپنے بچوں اور متعلقین کو تلاوتِ قرآن کا پابند کریں گے ، کوشش کریں گے کہ خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص حفظ قرآن مجید کی سعادت حاصل کرے ، ہم اپنی عملی زندگی کو قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں گے اور اپنی خواہشات اور وقتی مفاد پر اللہ کی خوشنودی کو غالب رکھیں گے ، قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں گے ، اگر ہم عربی زبان سے واقف نہیں ہوں تو قرآن کے تراجم اور تفسیر وں کے ذریعہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب میں ہم سے کیا فرماتا ہے ، پھر ہم اس بات کا بھی عزم کریں کہ اپنے اہل تعلق غیر مسلم بھائیوں تک قرآن مجید کے تراجم پہنچائیں ؛ تاکہ ہم دعوت کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکیں ، جو اللہ تعالیٰ نے خیراُمت ہونے کی حیثیت سے ہم سے متعلق فرمائی ہے۔
رمضان المبارک سے ہمیں مواسات اور غم خواری کا سبق ملتا ہے ، جب انسان خود بھوکا رہے ، تو وہ بھوک کی تکلیف کو محسوس کر سکتا ہے اور اپنے ان بھائیوں کے دکھ کو سمجھ سکتا ہے ، فاقہ مستی جن کے لئے معمولات کے درجہ میں ہے ، اسی لئے آپ ﷺنے اس مہینہ کو ’’شہر المواساۃ‘‘ یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے اور اس مہینہ کے ختم پر صدقۃ الفطر واجب قرار دیا گیا ہے ؛ تاکہ اہل ثروت مسلمان اپنے غریب بھائیوں کو اپنی مسرت و شادمانی میں شریک کر سکیں ، یہ سبق سال بھر یاد رکھنے اور یہ عمل ہر دن دہرانے کا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے کام آئے ، وہ اس کی مصیبت و پریشانی کو اپنی مصیبت و پریشانی سمجھے ، وہ اس وقت تک اپنی خوشی کو نامکمل سمجھے جب تک کہ اس کا بھائی بھی اس خوشی میں شریک نہ ہو ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری عملی زندگی ، اسلامی اخوت کے اس تصور سے دُور ہوتی چلی جارہی ہے ، اہل دولت اپنی دولت کے نشہ میں سرشار ہیں ، اُمت ِکے محتاج اور ضرورت مند لوگوں کا انھیں کوئی خیال نہیں ؛ بلکہ ان کی عیش پرستی ، غریب مسلمانوں کے لئے پریشانیوں کا موجب ہے ، شادی بیاہ کی فضول رسمیں اور اس میں ہونے والی فضول خرچیاں اصل میں ہمارے مالدار طبقے ہی کی دین ہیں ، بیچارے کم آمدنی والے لوگ ان شاہ خرچیوں کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں ، غریب خاندانوں میں پیدا ہونے والے بہت سے ذہین بچے مجبوراً تعلیم کو چھوڑ دیتے ہیں ؛ کیوں کہ وہ بڑھتی ہوئی رشوت ستانیوں کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے ، یہ رشوت کا بازار قوم کے دولت مند طبقہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو کچھ معاشی فراغت دی ہو ، وہ اپنے غریب بھائیوں کا حق محسوس کریں اورانھیں اونچا اُٹھانے کی کوشش کریں ۔
رمضان ہمیں اوقات کی پابندی اور اس کے انضباط کا بھی سبق دیتا ہے ، یوں تو اسلام میں تمام عبادتیں وقت سے مربوط ہیں ؛ لیکن روزہ میں تو بہت زیادہ انضباط وقت کی ضرورت پڑتی ہے ، رات کے آخری پہر میں بیدار ہونا اور صبح صادق سے عین پہلے سحری کھانا ، اگر اس میں ذرا بھی تاخیر ہواور صبح طلوع ہونے کے بعد ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا ، پھر غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کرنا ہے ، اگر پہلے افطار کر لیں ، تو روزہ درست نہ ہو اور دیر سے افطار کریں تو کراہت ہے ، روزہ افطار کرنے اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کھانا کھا کر فارغ ہوئے کہ عشاء کا وقت شروع ہوا ، اب نماز عشاء پڑھنا ، پھر اس کے بعد تراویح پڑھنی ہے ، اگر اللہ توفیق دے تو پھر سوکر اُٹھنے کے بعد نماز تہجد ادا کرنی ہے ، یہ پورا نظام العمل اس قدر مشغول اور مربوط ہے کہ انضباط وقت کے بغیر ان کو انجام نہیں دیا جاسکتا ۔
یہ وقت کی حفاظت کا بہت بڑا سبق ہے ، وقت ایسی قیمتی چیز ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ، وقت کی قدر دانی میں دین و دنیا دونوں کی فلاح ہے اور وقت کی ناقدری میں دونوں کا نقصان ، اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہماری تقریبات نہ وقت پر شروع ہوتی ہیں ، نہ وقت پر ختم ، یہاں تک کہ ہماری مذہبی تقریبات اور جلسے وغیرہ بھی وقت پر شروع نہیں ہوتے ، نہ معینہ وقت پر ان کو ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، بعض دفعہ رات کے دوڈھائی بجے تک ہماری تقریروں کا جوار بھاٹا اُبلتا رہتا ہے ، ایسی صورت میں کیسے اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ ہمارے بھولے بھالے سامعین فجر کی نماز ادا کر سکیں گے؟ یہ وقت کے معاملہ میں فضول خرچی اور اسراف ہے اور یہ مال و دولت کے اسراف سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے ۔
روزہ ہمیں اس بات کا عادی بناتا ہے کہ ہم اپنی خواہش پر اللہ کی خوشنودی کو غالب کرنا سیکھیں ، بھوک و پیاس انسان کی ایسی خواہش ہے کہ ان کو چند گھنٹے بھی روکنا دشوار ہے ، چہ جائے کہ صبح سے شام تک ، بظاہر کوئی طاقت روکنے والی نہیں ، کوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ، اس کے باوجود انسان کھانے پینے سے رکا رہے ، اس سے بڑھ کر اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے تابع کرنے کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک رسمی عمل نہیں بلکہ تربیتی عمل ہے ، یہ عمل گو ایک ماہ میں فرض ہے ؛ لیکن یہ اپنی روح اور مقصد کے اعتبار سے ایک ماہ میں محدود نہیں ؛ بلکہ ضروری ہے کہ یہ کیفیت ہر مسلمان کی زندگی میں سال بھر قائم رہے ، ورنہ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ روزہ دار نے صرف روزہ کی صورت کو پایا ہے ، نہ کہ روزہ کی حقیقت کو ، اس نے روزہ کے قالب کو حاصل کیا ہے نہ کہ اس کی روح کو اور رسول اللہ ﷺکی زبان حق ترجمان کے مطابق اس نے بھوک و پیاس برداشت کی ہے، حقیقی معنوں میں روزہ نہیں رکھا ہے ۔
ہم اپنی عملی زندگی میں بار بار اس امتحان سے گذرتے ہیں ، کہ ہمیں خدا کی فرماں برداری عزیز ہے یا نفس کی تابع داری ، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہے ، یا سماجی شہرت وناموری ، نکاح کی تقریبات میں کتنی ہی خلاف شرع باتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، فوٹو گرافی ، ویڈیو گرافی ، بے پردگی ، مرد و عورت کا اختلاط فضول خرچی ، لڑکے اور اس کے خاندان کی طرف سے مختلف مطالبات ، ولیمہ میں بے جا اسراف ، عام طور پر یہ سارے گناہ سماجی عزت ، جھوٹی شہرت اور متعلقین کی خوشنودی کے لئے کئے جاتے ہیں ، گویا خدا کی ناراضگی کی قیمت پر خلق خدا کی خوشنودی خریدی جاتی ہے ، ایسے مواقع پر روزہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مومن نے خدا کی خوشنودی کے بدلے اپنی خوشنودی کا سودا کر لیا ہے ، اس لئے اس کو یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے جیسے انسانوں کی مرضی پر چل کر خدا کو ناراض کرے ۔
قرآن نے سود کے حرام ہونے کا اعلان کیا ہے ، رسول اللہ ﷺنے نہایت سختی کے ساتھ نہ صرف سود لینے ؛ بلکہ سود سے متعلق ہر طرح کے تعاون کو منع فرمایا ہے ؛ لیکن آج مسلمان اہل ثروت بے تکلف اپنی رقم بینکوں میں رکھتے اور اس کا سود حاصل کرتے ہیں ، بعض لوگ تو وظیفہ یاب ہونے کے بعد اپنی آخری زندگی اس سود پر گذارتے ہیں ، کس قدر افسوسناک بات ہے ، کہ بڑھاپے میں گناہ کرنے والے بھی ، گناہ سے باز آجاتے ہیں اور توبہ کی راہ اختیار کرتے ہیں ؛ لیکن یہ ایسے محروم القسمت ہیں کہ زندگی بھر محنت کی حلال کمائی کھا کر آخری وقت سود خواری میں گذارتے ہیں ، جس شخص کا یقین اللہ کی رزاقیت پر ہو اور نفس کی خوشنودی پر خدا کی خوشنودی کو غالب رکھنے کی لذت اور حلاوت سے آشنا ہو ، وہ بھلا آخر عمر میں اس سود خوری کو کیسے اختیار کر سکتا ہے ؟ یہی مواقع ہیں جن میں انسان کی ضبط نفس کی قوت کا امتحان ہوتا ہے ، کہ روزہ نے صرف اسے بھوکا ، پیاسا رکھا ہے ، یا اس میں روحانی اور اخلاقی انقلاب بھی پیدا کیا ہے ؟