جولیانے کہاکہ صرف پریشانیوں اور بدحالی کاساری زندگی سامنا کرنے والے خاندانوں سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے گہرا صدما لگا ہے
ڈھاکہ۔ منگل کے روز انجلینا جولی نے میانمار پر زوردیا کہ وہ راکھین ریاست میں پرتشدد کاروائی کو بند کرتے ہوئے حقیقی وعدے کا مظاہرپ کریں ‘ جہا ں سے سینکڑوں ‘ ہزاروں روہونگیائی مسلم پڑوسی ریاست بنگلہ دیش میں پناہ لینے کی غرض سے نقل مقام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کی خصوصی مبصر جولیانے یہ بات اس وقت کہی جب وہ بنگلہ دیش میں ایک ملین روہنگیائیوں کے گھر مانا جانے والے لوگوں سے بھرے کیمپس کا دورے پر تھیں۔ اگست2017کے بعد سے اب تک 7لاکھ سے زائد روہنگیائی مسلمانوں یہیں پر کوچ کرچکے ہیں‘ کیونکہ میانمار کی فوج نے روہنگیائی گروپ کے سکیورٹی پوسٹ پر حملہ کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد برپا کیاتھا۔
جولیایہاں پر اپنے تین روز دورے پر ہیں‘ قبل ازیں انہوں نے 920ملین ڈالر کی بین الاقومی اپیل کی جاری کی تھی تاکہ 2019میں پناہ گزینوں کی ضرورتوں کو پورا کیاجاسکے۔جولیا نے پناہ گزینوں سے ملاقات اور بات چیت کی جس میں بچے اور عصمت ریزی کاشکار بھی شامل تھے۔
کوتو پالونگا مہاجرین کیمپ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے جولیانے کہاکہ صرف پریشانیوں اور بدحالی کاساری زندگی سامنا کرنے والے خاندانوں سے ملاقات کرنے کے بعد مجھے گہرا صدما لگا ہے‘ جو کہہ رہے ہیں ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیاگیا‘‘۔
جولیا نے مزیدکہاکہ ’’ انہیں ان کے سب سے بنیاد انسانی حقوق شہریت سے محروم کیاگیاہے‘ وہ اس مقام پر جہاں وہ پیدا ہوئے ہیں۔اور کچھ اب بھی انہیں ان کے حقیقی نام کے بجائے روہنگیائی پکارتے ہیں‘‘۔
کثیر آبادی کے باوجود پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے پر انہوں نے بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا اور بین الاقوامی کمیونٹی پر زوردیا کہ وہ مزید وسائل تارکین وطن کے لئے مہیاکرائیں۔انہوں نے کہاکہ ’’ بنگلہ دیش کی عظیم تہذیب ‘ ثقافت او رتاریخ ہے‘ مگر اس کے وسائل محدود ہیں۔ ا
ور روہنگیائی پناہ گزینوں کی میزبانی کا ذمہ داری اس کا کاندھا پر اکیلے نہیں چھوڑ سکتے‘‘۔ جولیا نے کہاکہ میانمار کو چاہئے کہ روہنگیائی کو ان کے گھر محفوظ طریقے واپس لوٹنے کا بھروسہ دلائے ۔
انہوں نے کہاکہ ’’ اپنے گھر واپس لوٹنے کا انہیں پورا اختیار حاصل ہے‘ مگر اس وقت ہی جب انہیں محفوظ رہنے کا احساس ہو‘‘۔
روہنگیائی پناہ گزینوں کی واپسی کے متعلق پچھلے سال نومبر میں بنگلہ دیش نے ایک شروعات کی تھی ‘ مگر کوئی بھی روہنگیائی کی وطن واپسی پر رضامندی کا اظہار نہ کیاجانے پر بنگلہ دیش نے اس عمل کو منسوخ کردیا۔
اقوام متحدہ او ردیگر انسانی حقوق کے گروپس نے کہاکہ کسی بھی روہنگیائی کو جبراً واپس نہیں بھیجاجانا چاہئے۔
شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش حکومت نے اس ضمن میں بین الاقوامی دباؤ بھی بنایاتھا۔ زیادہ تر بدھسٹ اکثریت والے میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں کو مذہبی اقلیت کے طور پر تصور نہیں کیاجاتا کیونکہ وہ صدیوں قبل بنگلہ دیش سے ائے’’ بنگالی‘‘ مانے جاتے ہیں۔ تقریبا1982سے انہیں نہ صرف شہریت بلکہ تعلیم اور اسپتال سے بھی محروم رکھا گیاہے