ریاستوں کی مدد کیلئے مرکز کا وعدہ پورا نہ ہوا

   

پی چدمبرم

جی ایس ٹی محاصل کے لئے ایک سنگین جدوجہد بن گیا یہاں تک کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء سے معیشت تباہ و برباد ہوگئی اور حال یہ ہے کہ بڑی تیزی سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ مرکزی حکومت کو اس کٹھن مرحلہ میں نہ صرف مدبرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا بلکہ وہ دانشمندی سے کام لے کر اس بحران پر قابو پاسکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس سے اس سے ارادوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
مرکز ریاستوں کی ضرور مدد کرے
میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ مرکزی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ریاستی حکومتوں کی مالی مدد کرتی اور دوسرا راستہ اختیار نہیں کرتی کیونکہ مرکز اور ریاستوں دونوں کے اختیارات اور الگ الگ اور جداگانہ ہے۔ میرا یہ بھی کہنا ہے
٭ مرکزی حکومت ایک حق کی طرح قرض حاصل کرسکتی ہے اور ریاستی حکومتیں مرکزی حکومت سے صرف پیشگی منظوری کے ساتھ قرض حاصل کرسکتی ہیں۔
٭ مرکزی حکومت ایک بااختیار اور اقتدار اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے قرض کم شرح پر لینے کا حکم دے سکتی ہے، جبکہ ریاستی حکومتیں زیادہ شرح پر قرض لیتی ہیں۔ اس طرح مختلف ریاستی حکومتوں میں قرض کی مختلف شرحیں ہیں یعنی کسی ریاست کی جانب سے لئے جانے والے قرض پر جو سود کی شرح عائد کی جاتی ہے وہ مختلف ہوتی ہے۔

٭ مرکزی حکومت ڈیویڈنٹ (منافع) کے طور پر ریزروبینک آف انڈیا سے منافع یا فوائد حاصل کرنے کی حقدار ہوتی ہے اور حالیہ عرصہ کے دوران اس نے آر بی آئی پر یقینا یہ دباؤ ڈالا کہ وہ منافع کی رقم زیادہ ادا کرے حالانکہ آر بی آئی مرکزی حکومت کی توقع کے برعکس کم منافع دینے کی خواہاں تھی۔ دوسری جانب ریاستی حکومتوں کا ریزروبینک آف انڈیا کے منافع پر کوئی دعویٰ نہیں ہوتا۔
٭ مرکزی حکومت اپنے خسارے کی پابجائی کے لئے پیسہ لگاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ریزرو بینک آف انڈیا سے یہ کہنے کا حق رکھتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کرنسی کی چھپائی کرے اور اس رقم کو مرکزی حکومت کے حوالہ کرے۔ اس کے برعکس ریاستی حکومتوں کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ آر بی آئی سے کرنسی نوٹ کی چھپائی کرتے ہوئے وہ رقم ان کے حوالہ کرنے کے لئے کہے۔
اس لئے ایسے معاشی بحران میں ریاستی حکومتوں کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ 2020-21 میں ہر ریاستی حکومت کو توقع ہے کہ اپنے قرض کے لئے جی ایس ڈی پی کی حد جو 3 فیصد ہے وہ بڑھ جائے گی۔ اس لئے ان ریاستی حکومتوں نے مرکزی حکومت سے مزید ہیڈروم کی فراہمی کی درخواست کی لیکن 0.5 فیصد ہی ان ریاستوں کو حاصل ہوسکا اور اس رقم کو تمام ریاستی حکومتیں جاریہ سال استعمال کریں گی اور اس حد سے زائد قرض شرائط کے ساتھ ایک بوجھ ہوگا اور یہ شرائط ایسی ہیں جسے کوئی ریاستی حکومت پوری کرنے کے لئے تیار نہیں ہے خاص طور پر رواں مالی سال میں۔

بھروسہ کی بنیاد پر معاہدہ
جی ایس ٹی معاہدہ دراصل مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تقریباً 5 برسوں تک بحث و مباحثوں کے بعد طے پایا ہے۔ یہ ایک طرح کا عہد ہے۔ یہ ایسا معاہدہ ہے جو بھروسہ کی بنیاد پر طے پایا۔ اس معاہدہ کی کامیابی کے لئے قانونی عمل کا سہارا لیاگیا اور اس کے پیچھے قانونی جذبہ کار فرما ہے۔ معاہدہ کے تحت ریاستی حکومتوں کو یہ ترغیب دی گئی کہ وہ ایک کونسل کا حصہ بنیں (جس میں مرکزی حکومت کو ویٹو اختیار حاصل ہے) یہ کونسل دراصل اشیا پر اضافی قدر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ویاٹ یا اضافی قدر ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہے جو مملکت کے خزانہ کو بھرتا ہے اور کئی ایسے محاصل ہیں جو ریاست کے خزانہ میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں مثال کے طور پر انٹری ٹیکس وغیرہ۔ جواب میں مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جی ایس ٹی مالیہ اسی طرح بڑھتے جائے گا جیسا کہ ویاٹ کو سیلز ٹیکس سے بدلنے کی صورت میں ہوا اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر ریاستوں کو حاصل ہونے والے ریونیو کا نمو سالانہ 14 فیصد کم ہوتا ہے تو پہلے پانچ برسوں میں اس کمی کو مرکزی حکومت کی جانب سے پورا کیا جائے گا یعنی پانچ برسوں تک جی ایس ٹی خسارہ ہوتا ہے تو ریاستی حکومتوں کو مرکزی حکومت رقم ادا کرتے ہوئے اس کی پابجائی کرے گی۔

یہ صرف زبانی معاہدہ نہیں ہے بلکہ قانون میں باضابطہ طور پر لکھا گیا ہے اور اس تحریر کے ذریعہ یہ بتایا گیا ہیکہ جی ایس ٹی خسارہ کی صورت میں مرکزی حکومت ریاستی حکومتوں کو معاوضہ ادا کرے گی اور اس معاوضہ کی ادائیگی کے لئے جو میکانزم ہے وہ دراصل فنڈس جمع کرنے کا میکانزم ہے اور اسے جی ایس ٹی کمپنزیشن فنڈ کہا جاتا ہے۔ یہ میکانزم دراصل ریاستوں کی مدد کرنے سے متعلق اس کے ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے اور اس میکانزم کے ذریعہ مرکزی حکومت ریاستی حکومتوں کی مالی مدد کرسکتی ہے۔ تاہم اب تمام ریاستیں جو جی ایس ٹی خسارہ سے دوچار ہیں مرکز پر زور دے رہی ہیں کہ وہ امدادی معاوضہ ریاستوں کو ادا کریں کیونکہ معاوضہ کی ادائیگی مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تاہم اس میکانزم کو وزیر فینانس اور وزارت فینانس کے عہدہ داروں نے نظرانداز کردیا ہے۔
یہ فنڈ فاضل بھی ہوسکتا ہے یا ان پانچ برسوں کے کسی بھی سال یا آخر میں خسارہ سے دوچار بھی ہوسکتا ہے۔ اگر یہ فنڈ پانچ سال کے اواخر میں فاضل رہا تب جو اضافی رقم ہے اس کا 50 فیصد حصہ مرکز کو منتقل کیا جائے گا اور اگر پانچ سال کے اواخر میں خسارہ ہوتا ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہ ایسا نکتہ ہے جس پر جی ایس ٹی کونسل میں کافی بحث و مباحث کئے گئے خاص طور پر ساتویں، آٹھویں اور دسویں اجلاس میں اور یہ مباحث 18 فروری 2017 کو جی ایس ٹی کونسل کے 10 ویں اجلاس میں اختتام کو پہنچے اور اس اجلاس کے ہر نکتہ کو نوٹ کیا گیا اور اس پر دستخطیں کی گئیں۔ خاص طور پر اس مباحث میں جو نکات نوٹ کئے گئے ان میں 6.3 جملہ کچھ اس طرح ہے۔
’’تلنگانہ کے عزت مآب وزیر نے کہا کہ معاوضہ کی ادائیگی کا جو قانون ہے اس کے تحت معاوضہ فنڈ میں رقم کم ہوتی ہے تو اس کی پابجائی کے لئے رقم دیگر ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ معتمد فینانس کا کہنا تھا کہ معاوضہ کی ادائیگی سے متعلق قانون کے مسودہ کے سیکشن 8(1) کے مطابق ٹیکس پانچ سال کے لئے وصول کیا جاسکتا ہے اور مدت کونسل کی سفارشات پر طے کی جاسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرکزی حکومت معاوضہ کی ادائیگی کے لئے دوسرے طریقوں سے وسائل پیدا کرسکتی ہے اور اس دسویں اجلاس میں بازار سے قرض کی وصولی کے امکانات پر بھی مباحث ہوئے تاکہ اس رقم سے ادائیگیاں کی جاسکیں۔
مبہم فیصلہ
کونسل کے اجلاس میں جو بھی فیصلہ کیا گیا اس میں اس بات کا کوئی شبہ نہیں کہ معاوضہ کی ادائیگی کے لئے مرکزی حکومت دیگر طریقوں سے وسائل پیدا کرسکتی ہے۔ جس میں معاوضہ کی ادائیگی کے لئے بازار سے قرض حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے حصول قرض کے لئے ریاستوں کو دو اختیارات دیئے ہیں جو صرف دھوکہ ہے کیونکہ اس سے رواں سال کے لئے ہر ریاست کے ریونیو بجٹ میں خسارہ ہی ہوگا اور قرض کے ذریعہ اس کی پابجائی ہوگی لیکن اس قرض کو ریاست کے کیپٹل اکاؤنٹ میں قرض کی حیثیت سے دکھایا جائے گا اور اس کے لئے ریاستوں کو عملاً قرض کی ادائیگی کے لئے سود بھی ادا کرنا ہوگا اور اگر ریاستی حکومتیں قرض حاصل نہیں کرتیں اور مرکزی حکومت معاوضہ ادا نہیں کرتی تو ریاستی بجٹ میں جو خسارہ ہے وہ برقرار رہے گا۔ ان حالات میں ریاستیں اپنے کیپٹل ایکسپنڈیچر یا بہبودی مصارف میںکٹوتی کریں گی۔ ویسے بھی ریاستوں کو مرکز کے دیئے گئے دو امکانات کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ کہنے کا بھی حق حاصل ہے کہ مرکز اس خلیج کو پاٹنے کے لئے وسائل فراہم کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مرکزی حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتی ہے یا پھر من مانی کرتی ہے۔