’’ریاض الجنۃ ‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
بیہقی کے حوالہ سے یہ روایت ہے کہ ہر صبح کو ستر ہزار فرشتے اس روضۂ جنت پر اُترتے ہیں اور شام تک درود شریف پڑھتے رہتے ہیں۔اس کے بعد واپس چلے جاتے ہیں اور پھر نئے ستر ہزار فرشتے آجاتے ہیں جو اسی طرح صبح تک درود شریف پڑھتے رہتے ہیں ۔ جو آنکھیں اس روضہ کے دیدارِ جمال سے مشرف ہوچکی ہیں وہ تو اس کی تصدیق کرنے کو تیار ہیں کہ بے شمار فرشتے ہر ساعت اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے اس مرکزِ نور کو منور بناتے رہتے ہیں۔سبحان اللہ
اس روضہ کے اندر آٹھ ستون ہیں جن کو ’’استوانِ رحمت ‘‘ کہا جاتا ہے۔جہاں نمازیں پڑھنے کی خاص فضیلتیں اور برکتیں آئی ہیں، روضۂ بھر میں کہیں بھی نماز پڑھیئے، سارا تختہ تختۂ جنت ہے ۔ اللہ کا فضل و کرم ہی کہیے مجھ پر کہ اس ناچیز کو آسانی اور بلا زحمت ہر ستون پر نماز پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ نورٌ علیٰ نور۔ الحمدللّٰہ واشکرللّٰہ :
(۱) استوانہ مخلقہ: یہ ستون عین مصلی نبی کی پشت پر ہے، منبر تیار ہونے سے قبل رسول اکرم ﷺ اسی جگہ کھڑے ہوکر خطبۂ جمعہ ارشاد فرماتے تھے۔ستونِ حنانہ جس نے منبر کی تیاری کے بعد حضورؐ سے جدا ہونے پر گریہ و بکا کیا تھا، ٹھیک اُسی مقام پر تھا۔
(۲) ستونِ علیؓ : یہاں پر صحابہ کرام حضور ؐکی دربانی اور پہرہ داری کیلئے بیٹھے تھے اور اکثر یہ خدمت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کیا کرتے ، اور آپ یہیں پر کثرت سے نمازیں ادا کرتے ۔
(۳) ستونِ وفود: باہر سے جو وفود آتے حضور ﷺ اُن سے اسی مقام پر ملاقات کرتے ۔ (۴) ستونِ ابی لبابہ: حضرت ابی لبابہ مشہور صحابیوں میں سے ایک ہیں، ایک مرتبہ آپ جہاد میں نہ جاسکے، اس زور کا احساس ندامت ہوا کہ ایک ستون سے اپنے آپ کو باندھ لیا۔بالآخر جب رحمتہ للعالمین ﷺ جہاد سے واپس ہوئے اور ابولبابہ کی بریت میں وحی نازل ہوئی تو آپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے ابولبابہؓ کو کھولا۔
(۵) ستونِ سریر : اس ستون کے پاس رسول اللہ ﷺحالت اعتکاف میں کبھی کبھار کھجور کے بوریئے پر آرام فرماتے تھے۔
چار ستون یعنی ستونِ حرس، ستونِ وفود، ستونِ سریر اور ستونِ جبرئیلؑ بالین مبارک کی جالیوں والی دیوار کے پاس ایک قطار میں قریب قریب ہیں۔
(۶) ستونِ جبرئیل: حضرت جبرئیل علیہ السلام اکثر وحی اسی مقام پر لاتے تھے ۔(۷) ستونِ عائشہ: جس جگہ مصلی نبیؐ ہے۔اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نے کچھ روز یہیں نماز ادا فرمائیں۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ  کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکلا : ’’میری مسجد میں ایک جگہ ایسی ہے کہ اس کی فضیلت اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے تو وہاں جگہ پانےکے لیے لوگ قرعہ ڈالیں‘‘۔اُس وقت سے صحابہ کرام کو برابر اُس جگہ کی جستجو رہنے لگی۔حضورؐ کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ نے اُس جگہ کا پتہ اپنے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکو بتایا اسی مناسبت سے اسے ستونِ عائشہؓ کہا جاتا ہے ۔ (۸) ستونِ تہجد: یہ مقصورۂ شریفہ کی پشت کی جانب ہے۔ یہاں رسول اللہ ﷺ تہجد کی نمازیں ادا فرماتے۔ سعودی حکومت نے یہاں تک پہنچنے کی ممانعت کردی ہے۔شاید اس خیال سے کہ یہاں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے تربت مبارک سامنے آتی ہے۔
روضۂ جنت میں جہاں کہیں بھی جگہ مل جائے اپنی خوش نصیبی سمجھیے، لیکن اس کے لئے دوسروں کی جگہ زبردستی چھین لینا، ایک دوسرے سے دھکم پیلی کرنا، آداب مسجد اور وقار دربار نبیؐ کے بالکل منافی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔اسے یہاں کی کرامت سمجھئے کہ ہر آرزو مند کو اس محدود رقبہ کے اندر جگہ مل جاتی ہے حالانکہ کل گنجائش اس میں شاید ڈھائی تین سو نمازیوں سے زائد کی نہ ہو صرف چند لمحے صبر و انتظار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ترک بادشاہ اپنے نام کے ساتھ ’’خادم الحرمین الشریفین ‘‘ لکھتے تھے ۔ شاہ فہد کو اللہ مغفرت اور جنت عطاء کرے کہ انھوں نے پھر سے اس خطاب کا احیاء کیا جو اب تک جاری ہے ۔ الحمدللّٰہ

میں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگوں کو اپنے اپنے طریقوں سے نمازیں پڑھتے اور زیارت کرتے دیکھا ہے ۔ رحمتہ للعلمین کا دربار سب کے عقیدتوں کا مرکز ہے ۔ اختلافات جتنے بھی ہیں باہر ہیں ۔ اندر نہیں ۔
راہ میں ہے منزلِ مقصود میں نہیں
در رسول پر پہنچ کر سب ایک ہیں
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں صحابہؓ کا کیا مذہب تھا ۔ کیا وہ بجز ’’محمدیؐ ‘‘ ہونے کے کچھ اور تھے ؟ آئیں اپنے اسلام کی تجدید کریں ۔ اللہ اور رسول کے سامنے اپنے عہد و پیمان کو استوار کریں۔ اُس کے ہاتھ پر بیعت کریں جس کے ہاتھ پر قادر مطلق کا ہاتھ ہے اور جس کی بیعت خالقِ کائنات کی بیعت ہے (سورۃ الفتح) مبارک ہیں وہ جنھیں اس عہد کی توفیق نصیب ہو ۔ مبارک ترین ہیں وہ جنھیں اس عہد پر ثابت قدمی نصیب ہو ۔
’’اَلظَّاهِرُ‘‘ کا ورد کیجئے اللہ تعالیٰ آپ کے دل و دماغ اور آنکھوں کو ’’حُبِّ رسولؐ ‘‘ سے منور کردے گا ۔ ان شاء اللہ
اے شفیع محترم ہوکے نادم آج ہم ۔ پھر مدینہ کی طرف آرہے ہیں صف بہ صف
یا محمدؐ مصطفیٰ، یا حبیب کبریا، پھر کرم فرمائیے ، راستہ دکھلائیے۔
یا نبیؐ خیرالانام ، یانبیؐ اعلیـ مقام !
اَللّٰھُمَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَ بَارِك وَسَلِّمْ o