زعفرانی رنگ سنہرے تلنگانہ کے خواب پر غالب

   

محمد انیس الدین
سابق بینکر و این آر آئی
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرہ پر دُہیرا نقاب رکھتا ہے
ملک عزیز سنگین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس بات کا سب کو بخوبی علم ہوگیا ہوگا۔ ایسے پُرآشوب حالات میں حقیقی محب وطن افراد اور جماعتوں میں اتحاد ناگزیر ہے۔ اگر ہم ایک مضبوط اتحاد میں ناکام ہوتے ہیں تو مستقبل میں آپ ہند کو ایک جمہوری ملک کی شکل میں دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے ۔ ملک میں جمہوریت کے سایے میں فسطائیت کا آزادانہ اور بے باکانہ فروغ ہورہا ہے اور فسطائی طاقتیں سارے ملک پر کنٹرول کیلئے پَر تول رہی ہیں۔ ملک کا کوئی علاقہ فسطائی سایے سے محفوظ دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے ان طاقتوں کو پھلنے، پھولنے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے سات سال کا وقت دے دیا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں زعفرانی رنگ ایسے جوہر دکھا رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تلنگانہ کے گلابی رنگ پر آہستہ آہستہ زعفرانی رنگ غالب ہورہا ہے اور کے سی آر کے سنہری تلنگانہ کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں کے سی آر پرگتی بھون سے قدم باہر نکال چکے ہیں۔
تلنگانہ کا حصول تلنگانہ کے عوام میں خصوصاً مسلم اقلیت کے تعاون سے حاصل ہوا اور کے سی آر اپنے ابتدائی ایام میں اس بات کا اعتراف بھی کرتے رہے لیکن 7 سالہ دور گلابی میں کے سی آر اور ان کی جماعت نے جمہوریت اور سکیولرازم کی بقاء کیلئے کیا کارنامے انجام دیئے ، عوام کو بتایا جائے۔ کے سی آر نے فیڈرل فرنٹ بنانے کیلئے اپنی کوششوں کا اعلان کیا لیکن اس تعلق سے ٹی آر ایس کو کوئی کامیابی نہیں ملی۔ کے سی آر نے اب تک بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ دستور، جمہوریت، سکیولرازم کے تحفظ کیلئے کل ہند سطح پر کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ حال ہی میں ٹی آر ایس نے کہا کہ اس تعلق سے کوئی فیصلہ اُترپردیش کے اسمبلی انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔
علیحدہ تلنگانہ کی جدوجہد کا آغاز 1969ء میں ڈاکٹر چنا ریڈی کی سرپرستی میں بہت ہی شدت کے ساتھ ہوا۔ سینکڑوں نوجوان پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہوئے اس کے بعد یہ تحریک زوال پذیر ہوگئی اور مرکز سے چنا ریڈی صاحب کو ہڈی مل گئی اور تحریک کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد کے سی آر نے اس تحریک کو زندہ کیا اور بھوک ہڑتال بھی کی اور یہ بات قابل تعریف ہے کہ موصوف اپنے ارادوں میں پرعزم تھے اور فیصلہ کن مرحلہ تک تحریک کو جاری رکھا۔ اس تحریک میں تلنگانہ کے مسلمان بھی تمام اہل تلنگانہ کے شانہ بہ شانہ ساتھ دیا اور ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں کامیابی نصیب ہوئی۔
ابتدائی ایام میں کے سی آر نظام دکن کی تعریف میں قصیدہ خوانی کرتے رہے اور کہا کہ میں بھی نظام کی طرح ہندو مسلم رعایا کو اپنی دونوں آنکھیں سمجھوں گا، لیکن رفتہ رفتہ کے سی آر نے مسلمانوں کو شکر سے مارنے کے فارمولہ پر عمل آوری کا آغاز کردیا۔
آنجہانی پی وی نرسمہا راؤ متحدہ آندھرا پردیش میں چیف منسٹر برہمانندا ریڈی کی وزارت میں وزیر تعلیم تھے۔ موصوف کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور قابل شخصیت تھے لیکن ان کو مسلمانوں سے نفرت کا زعفرانی موتیا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے موصوف کو بابری مسجد شہید ہوتے دکھائی نہیں دی۔ مسجد کی شہادت موصوف کی وزارت عظمی کے دور کا ایک تاریک سانحہ ہے جس کی وجہ سے جمہوریت اور سکیولرازم پر پہلی ضرب اس سانحہ کے بعد لگی۔نرسمہا راؤ کبھی بھی علیحدہ تلنگانہ تحریک کے حامی نہیں رہے، لیکن اچانک کانگریس مخالف کے سی آر صاحب ایک کانگریس کے بعد الموت عقیدت مند ہوگئے۔ اس کانگریس کو خود کانگریسوں نے کوئی عزت نہیں دی اور شہر کے حسین ساگر پر کروڑہا روپیہ کا عوامی سرمایہ کا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم کی تقلید کرتے ہوئے ایک مجسمہ نرسمہا راؤ کی یاد میں ایستادہ کیا تاکہ جب بھی حیدرآبادی مسلمان اس مجسمہ پر نظر ڈالیں، ان میں بابری مسجد کے المیہ کی یاد تازہ ہوجائے۔ اگر کے سی آر صاحب کو حقیقت میں عوام سے ہمدردی اور محبت ہوتی تو وہ مجسمہ پر خرچ ہونے والے سرمایہ کو کورونا سے ہلاک ہونے والوں اور ان کے یتیم اور بے سہارا بچوں کیلئے استعمال کرتے۔
نرسمہا راؤ صاحب کو بعد از مرگ کانگریسیوں نے آخری رسومات کیلئے دہلی میں کوئی مقام نہیں دیا۔ آخرکار موصوف کا کسمپرسی کے عالم میں نیکلس روڈ سے قریب کریا کرم ہوا اور اس مقام کو ’’نرسمہا راؤ مارگ‘‘ کا نام دیا گیا۔ نیکلس روڈ پر ایک طویل مجسمہ جو حسین ساگر پر موجود تمام مجسموں سے منفرد ہے، کھڑا کردیا۔ این ٹی آر نے وسط حسین ساگر میں گوتم بدھ کا مجسمہ ایستادہ کرکے حضرت حسین شاہ ولیؒ کی روح کو اذیت دی اور اب کے سی آر نے نرسمہا راؤ کا مجسمہ نیکلس روڈ پر نصب کرکے مسلمانوں کی شدید دل آزاری کی ہے۔ اپنے آپ کو سکیولر ذہن ظاہر کرنے والے کے سی آر کی ذہنیت کھل کر عوام کے سامنے آگئی۔
٭ حیدرآباد یونیورسٹی کا نام تبدیل کردیا گیا اور نرسمہا راؤ سے موسوم کیا گیا۔ ٭ تلنگانہ کے 10 جامعات میں ایک بھی مسلم وائس چانسلر نہیں۔٭ حیدرآباد کے مسلمانوں پر بے انتہا چالانات کرکے حکومت کا خزانہ بھرا گیا۔٭ سیکریٹریٹ کی مساجد کو مسمار کیا گیا۔ٹی آر ایس مسلسل مسلمانوں کی دل آزاری کررہی ہے۔ آخر یہ رنگ بدلنے کی وجوہات کیا ہیں، آپ پر ایسا کرنے کیلئے کیا زعفرانی دباؤ ہے؟
سیکریٹریٹ کی مساجد کو مسمار کیا گیا، اس سے مسلمانوں کی دل آزآری ہوئی اور کے سی آر صاحب دوبارہ تعمیر کے وعدہ کو کب پورا کرتے ہیں، یہ بات مسلمان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ صرف ہمارے وزیر داخلہ جانتے ہیں کہ دوبارہ تعمیر کب ہوگی۔ جو شخص بابری مسجد کی مسماری کے ذمہ داروں کو مقام عطا کرکے ان کا یادگار مجسمہ کھڑا کردیا کیا اس شخص سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ سیکریٹریٹ کی مساجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کے وعدہ کو عملی جامہ پہنائے گا۔
وزیر اعلیٰ صاف صاف عوام کو بتا دیں کہ وہ مکروہ زعفرانی دباؤ میں آکر اپنی روش میں تبدیلی لاچکے ہیں یا موصوف کا واستو دوبارہ تعمیر کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ مسلمانو! نرسمہا راؤ کو حسین ساگر پر کھڑا کرکے سی ایم صاحب مساجد کی دوبارہ تعمیر نہیں کریں گے، یہ صرف وعدہ کی حد تک ہی رہے گا اور یہ وعدہ کبھی وفا ہونے کی امید اب باقی نہیں رہی۔
تلنگانہ کو زعفرانی جارحیت سے پاک رکھنے کیلئے مسلمانوں نے ٹی آر ایس کا ساتھ دیا لیکن انتخابات میں اپنی فتوحات کے غرور میں سرشار ہوکر ٹی آر ایس اپنے ساتھیوں کو آہستہ آہستہ فراموش کرتی جارہی ہے۔ تلنگانہ کے مسلمانوں نے ٹی آر ایس کی تائید کی اور دل سے اس جماعت کا ساتھ دیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ مسلمان تلنگانہ میں مسلمانوں پر ہونے والی مسلسل ناانصافیوں پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ تلنگانہ کے مسلمان ایک مضبوط اور مثالی اتحاد کا نمونہ پیش کریں تاکہ زعفرانی دہشت، جارحیت اور ہٹ دھرمی کا منہ توڑ جواب دے سکیں اور تلنگانہ کے مسلمانوں کا اتحاد سارے ہند کے مسلمانوں کیلئے مثال بن جائے۔
محترم چیف منسٹر صاحب! آپ صرف وعدہ کررہے ہیں، وعدہ وفا نہیں کرتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے، آپ پی ایم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ چیف منسٹر کے ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھیں تو یہ بات ظاہر ہوئی کہ چیف منسٹر 22 افراد کو Follow کرتے ہیں جس میں سب زعفرانی ٹولہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چیف منسٹر کو ایک بھی مسلمان فالو کرنے کے لائق نظر نہیں آیا۔ ذرا غور فرمایئے۔