زیادہ مرکوزیت والی طاقت سے اختلاف و انتشار پیدا ہوتا ہے

   

امجد خان
ہماری ابھرتی ہوئی انسانی دنیا اپنے آبا و اجداد کی سماجی و زبانی ثقافتی وراثت کی سمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ جیسا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وفاداری اور ثقافتی قبیلوں و برادری سے نکل کر بادشاہت کے قیام اور ممالک و مملکت بنانے یا پھر چھوٹی کمزور اقوام پر اپنا تسلط جمانے سے لے کر قابضین سے آزادی مانگنے تک ایسا لگتا ہے کہ انسان سماجی و لسانی ثقافتی مملکتوں اور سماج کی سمت بڑھتا جا رہا ہے اور خود کو قوم کے مرکوز طاقت والے نظام سے خود کو دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
چلئے ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ آج کا مشاہدہ ہوسکے اور مستقبل کا قیاس کیا جاسکے ۔ بادشاہتوں کے خاتمہ پر یوروپی صنعتی انقلاب آیا اور نئے سمندری راہیں دریافت کی گئیں۔ اس کے نتیجہ میںکمزور اقوام کے ابھرتے ہوئے وسائل پر نہ صرف کنٹرول کیا گیا بلکہ ان پر قبضہ بھی کرلیا گیا جس کے نتیجہ میںیوروپی اقوام ( جیسے اسپینی ‘ برطانوی ‘ ولندیزی اور اطالوی ) نے ساری دنیا میں اپنی نو آبادیات بنانی شروع کردیں ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک کے بعد ایک پہلی اور دوسری عالمی جنگ صرف دو ایک دہوں میں ہوگئیں۔ اسی طرح روس کو سوویت سوشلسٹ جمہوریہ میں تبدیل کردیا گیا جس سے روس کو مشرقی یوروپی اقوام پر کنٹرول حاصل ہوگیا اور مغربی و مغربی جرمنی اور جرمن عوام کی تقسیم ہوگئی ۔ انہوں نے بعد میں جرمنی اور جرمن عوام کو ایک کردیا ۔ مشرقی یوروپی اقوام کو سوویت مملکت سے آزادی اور علیحدگی حاصل ہوگئی اور سوویت مملکت اپنے طور پر ہی زوال کا شکار ہوگئی ۔ اس کے علاوہ افریقی ‘ مشرق وسطی ‘ ذیلی بر اعظم ہند اور دور دراز کی مشرقی اقوام کو نوآبادیاتی حکمرانوں سے آزادی حاصل ہوگئی ۔ برطانیہ کا یوروپین یونین سے اخراج ‘ بریگزٹ ‘ بھی سابقہ وقتوں میں واپسی کی ایک تازہ ترین مثال ہے ۔
اپنے انتظام اور استحصال کو آسان بنانے کیلئے برطانیہ نے سارے ذیلی بر اعظم کو انتہائی کثرت کے باوجود ایک قوم کے طور پر دیکھا ۔ آزادی کے بعد مذہب کی بنیاد پر اختلافات کی وجہ سے پہلی تقسیم ہوئی ۔ روایتی مسلمانوں اور سکیلور ہندووں ‘ مسلمانوں اور سکھوں اور دوسروں کے درمیان لسانی یکسانیت کو اس میں نظر انداز کردیا گیا ۔ مسلمانوں نے شمال مغربی ریاستوں سندھ ‘ بلوچستان ‘ پنجاب ‘ شمال مغربی صوبہ سرحد ‘ مقبوضہ کشمیر اور شمال مشرق میں بنگال کا کچھ حصہ حاصل کرلیا ۔ تاہم اندرون 25 سال مزید تقسیم کے واضح اشارے شروع ہوگئے اور فوجی مداخلت اور خونریز خانہ جنگی بنگالی بولنے والے مسلمان ( جو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے ) اور مغربی پاکستان کے غیر بنگالی مسلمانوں کے درمیان شروع ہوگئی ۔ حالانکہ یہ سب بحیثیت مسلمان ساتھ آئے تھے ۔ چونکہ مغربی پاکستان بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے ایسے میں مغربی پاکستان میں بھی گروہ واریت اور اختلافات لسانی بنیادوں پر شروع ہوگئے اور ہندوستان سے آنے والے تارکین وطن بھی اختلافات کی وجہ بنے ۔ یہ سب کچھ اس دعوی کے باوجود ہوا کہ وہ سب مسلمان ہونے کی وجہ سے آپس میں متحد رہنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب ہندوستان نے مکمل سکیولر ازم کو اپنے دستور کے طور پر اختیار کیا اور حکومت کا کوئی مذہب اختیار نہیں کیا گیا ۔ ہندوستان میں کامیاب طور پر مقننہ کی شاخیں ‘ ادارے قائم کئے گئے اور وزیر اعظم کو منتخب کیا گیا جو عاملہ کے اختیارات کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ عدلیہ کا قیام عمل میںآیا تاکہ انصاف ہوسکے اور فوج تشکیل دی گئی تاکہ سرحدات کا تحفظ ہوسکے اور ملک میں اس کی کوئی مداخلت نہ ہو۔
بنیادی طور پر یہ اس وقت 20 سے زیادہ ریاستوں کا ایک عظیم یونین تھا جبکہ ہر ریاست کی ایک اپنی منفرد زبان ‘ اپنا کلچر اور اپنے عقائد تھے ۔ ان کی اپنی مقننہ حکومتیں اور عدلیہ بھی تھی لیکن ان پر مرکزی حکومت کو بالادستی تھی اور ایک سپریم کورٹ بھی قائم تھا جبکہ ایک بڑی فوج بھی موجود ہے ۔ یہ سب اپنے طور پر کئی علیحدہ اور آزاد ملک بننے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے ۔ تاہم 1947 میں آزادی کے بعد سے مرکزی حکومت ہر پانچ سال میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے ساتھ مستحکم ہوتی گئی ۔
پہلی برسر اقتدار پارٹی کانگریس نے ‘ اپنے سکیولر ہونے کے باوجود ‘ ایک موقع پر نہ صرف ایمرجنسی نافذ کی بلکہ دوسرے موقعوں پر دوسرے مظالم بھی ڈھائے گئے ۔ ۔ اس کے بعد مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی ہندوتوا وادی دائیں بازو کی بی جے پی کو اقتدار ملا جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس سے اتفاق کرتی ہے ۔ اس کا اصل مقصد انتہائی مشکل سے حاصل کردہ سکیولر دستور کو تبدیل کرنا ہے اور صدیوں سے امتیاز کا شکار پسماندہ طبقات وغیرہ کو تحفظات ختم کرنا ہے ۔ اقلیتوں کو بالکل حاشیہ پر کردینا ہے تاکہ ہندوستان ایک ہندو مذہب والا ملک بنادیا جائے اور دوسرے تمام مذاہب کو ختم کردیا جائے ۔
ابتداء میں کچھ تجرباتی امتیازی قوانین کے بعد بی جے پی نے ایک غیر دستوری اور امتیازی سلوک والے قانون سی اے اے کو منظور کیا اور وہ این آر سی بھی نافذ کرنا چاہتی ہے ۔ سی اے اے کے ذریعہ سوائے مسلمانوں کے ہر تارک وطن کو شہریت دینے کی گنجائش ہے ۔ سب سے زیادہ قابل گرفت بات یہ ہے کہ ہر شہری کو خود پہلے اپنی قانونی حیثیت اور شہریت ثابت کرنی ہے اور اگر وہ غیر مسلم ہے تو اسے شہریت دیدی جائیگی اور مسلمان کو نہیں دی جائیگی ۔ انہیں کیمپس میں ڈال دیا جائیگا ۔ اس پر کئی ریاستوں میں عوامی رجحان بدل گیا ۔ کئی ریاستوںمیں عدم تشدد پر مبنی مظاہرے اور احتجاج شروع ہوگئے ہیں۔ بیرون ملک بھی احتجاج ہو رہا ہے ۔ یہ پہلی بار ہو رہا ے کہ ایک ریاست کے بعد دوسری ریاست یا تو مرکزی حکومت کے قانون کو روکنے کیلئے قرار داد منظور کر رہی ہے یا پھر ان قوانین کو اپنی ریاست میں نافذ نہ کرنے کی بات کر رہی ہے ۔ کچھ ریاستوں نے مرکزی حکومت کے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کی ہے ۔ یہ پہلی بار ہے کہ مرکزی حکومت کی اجارہ داری کے خلاف اتنا شدید اختلاف ہو رہا ہے ۔ حالانکہ اس بات کا تصور نہیںرہا ہو لیکن اس احتجاج نے ایک خام خیالی اور نا قابل قیاس امکان کو واضح کردیا ہے کہ ریاستیں اپنی خود اختیاری کیلئے بھی آواز اٹھا سکتی ہیں اگر صورتحال متقاضی ہوجائے ۔
اس حقیقت کے تحت ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر ہندوستان برطانیہ سے آزادی کے بعد تمام ریاستوں کو خود محتار اقوام کے طور پر رکھتا جیسا یوروپ میں ہوا اور ان تمام کو ایک یونین کے تحت جیسا کہ یوروپی یونین ہے لاتا ؟ ۔ جس سے ہر ملک کو آزادی کے فوائد اور خطرات دونوں کا سامنا ہوتا ۔ یہ اقدام ایک علیحدہ پاکستان جو مذہب کی بنیاد پر بنا ہے اس سوچ کو بھی روک سکتا تھا ۔ یہ وقت ہی بتائیگا کہ مستقبل کے نتائج کیا ہونگے لیکن یہ ایک ڈر پیدا کرنے والی سوچ ہی ہے کہ اگر مرکز کے بڑھتے اثر کی وجہ سے خانہ جنگی شروع ہوجائے تو کیا ہوگا ؟ ۔